نہج البلاغہ در آئینہ اشعار

نہج البلاغہ اور عرب شعراء

نہج البلاغہ کو سید رضیؒ نے سن 400 ھ میں جمع و مدوّن کیا۔ اس عظیم الشان کتاب کے بارے میں سب سے پہلی نظم یعقوب بن احمد (متوفیٰ 474 ھ) نے کہی، جس کے بعد ان کے فرزند حسن بن یعقوب اور شاگرد علی بن احمد نے بھی منظوم کلام پیش کیا۔ یہ ابتدائی تینوں شعری تاثر نہج البلاغہ کے قدیم نسخوں میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان کا تذکرہ محققِ نہج البلاغہ، سید عبدالعزیز طباطبائیؒ نے اپنی ایک محققانہ تحریر میں نہایت وضاحت کے ساتھ کیا ہے۔

علامہ آقا بزرگ تہرانیؒ نے اپنی شہرۂ آفاق تصنیف الذریعہ کی جلد چہارم میں نہج البلاغہ کے تراجم و شروح کا ذکر کرتے ہوئے بعض شعری نمونے بھی درج کیے ہیں۔ اسی طرح علامہ تقی شوشتریؒ نے اپنی عظیم شرح نہج البلاغہ (چودہ جلدوں پر مشتمل) کی پہلی جلد میں چھبیس ایسے عرب شعراء کا کلام جمع کیا ہے جنہوں نے اس کتاب کے اثر و عظمت کو منظوم صورت میں بیان کیا۔

مدت سے یہ خواہش دل میں تھی کہ ان عربی اشعار کا اردو قالب بھی سامنے آئے تاکہ ہمارے اہلِ ذوق اور نوجوان اہلِ قلم ان تاثرات سے براہِ راست بہرہ مند ہو سکیں اور یہ جان سکیں کہ عرب شعراء نے نہج البلاغہ کے بحرِ معانی سے کس طرح استفادہ کیا۔ خوش قسمتی سے جناب مولانا نور ہاشم صاحب نے بڑی محبت اور محنت سے ان کا اردو ترجمہ انجام دیا۔ جو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

امید ہے اردو قارئین کو اس علمی و ادبی سرمایہ کا کچھ اندازہ ہو سکے گا اور اس سے مستفید ہوں گے۔مرکز افکار اسلامی کی کوشش ہے کہ شعراء کرام اپنا حصہ بٹاتے رہیں اور کلام امام کے مفاہیم کو اپنے اپنے انداز میں اور اپنی اپنی پسندیدہ ہیئت میں پیش کریں۔

ان شاء اللہ جلد کچھ فارسی کلام بھی آپ کی خدمت میں پیش کیا جائے گا۔
مرکز افکار اسلامی

1: سید علی بن محمد آل زبارہ بیہقی، تاریخ وفات: 548ھجری

يـا مَنْ تَجاوَزَ قِمَّةَ الجَوْزاءِ

بِأَبِي، مُبيدًا لِلْعِدَى أَبـاءَ

اے وہ (شخصیت) جس نے جوزاء (ستاروں کے جھرمٹ) کی بلندی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا، میری جان قربان! دشمنوں کو نیست و نابود کرنے والا، دلیر اور شجاع۔

زَوْجَ البَتُولِ أَخَا الرَّسُولِ مُنابِذًا

الكُفّارَ دامِغَ صَوْلَةِ الأَعْداءِ

فاطمہ بتولؑ کے شوہر، رسولؐ کے بھائی، جو کافروں سے برسرِ پیکار رہے،کفار کے سر کچلنے والے اور دشمنوں کی یلغار کو توڑ دینے والے۔

مُتَشَبِّثًا بِعُرَى التُّقَى مَعْرُوفَةً يَمْناهُ

بِالإِعْطابِ وَالإِعْطاءِ

تقویٰ کی رسّیوں کو مضبوطی سے تھامنے والے، جن کا دایاں ہاتھ سب کو معروف ہے، کہ کبھی قہر و ہلاکت برپا کرتا ہے اور کبھی بخشش و عطا۔

ذِي غُرَّةٍ قَمَرِيَّةٍ وَعَزيمَةٍ

رَضَوِيَّةٍ وَسَجِيَّةٍ مَيْثاءَ

جن کا چہرہ ماہتاب کی مانند روشن ہے اور عزم حسینؑ جیسا بلند، اور مزاج حسنؑ کی طرح نرم و سکون بخش، اور طبیعت حسینؑ کی طرح عالی و معتدل۔

قَدْ طَلَّقَ الدُّنْيا بِلا كُرْهٍ

وَلَمْ يَغْتَرَّ بِالصُّفْراءِ وَالبَيْضاءِ

انہوں نے دنیا کو طلاق دی، لیکن کراہت کے ساتھ نہیں (بلکہ خوشی و رضا کے ساتھ)، اور نہ ہی سونے اور چاندی (دولت) نے انہیں دھوکے میں ڈالا۔

لَوْ لَمْ يَكُنْ في صُورَةٍ بَشَرِيَّةٍ

ما كانَ يُدْعَى مِنْ بَني حَوّاءَ

اگر وہ انسانی صورت میں نہ ہوتے، تو انہیں کبھی بنی نوعِ حوّا میں شمار نہ کیا جاتا۔

نَهْجَ البَلاغَةِ مِنْ مَقالَتِهِ الَّتي

فيها تَضِلُّ قَراحِحُ البُلَغاءِ

نہج البلاغہ ان کے اقوال میں سے ہے، جس کے سامنے بڑے بڑے بلیغ و فصیح لوگوں کی عقلیں حیران و گمراہ ہو جاتی ہیں۔

كَمْ فيهِ مِنْ خُطَبٍ تَفُوحُ عِظاتُها

كَالرَّوْضِ غِبَّ الدِّيمَةِ الوُطْفاءِ

اس میں کتنے ہی خطبات ہیں جن کی نصیحتیں یوں مہکتی ہیں، جیسے بارش کے بعد کا باغ خوشبو سے لبریز ہو جائے۔

2: أبو نصر علی بن أبی سعد محمد بن الحسن بن أبی سعد الطبیب

نَهْجُ البَلاغَةِ مَشْرَعُ الفُصَحاءِ

وَمُعَشْشُ البُلَغاءِ وَالعُلَماءِ

نہج البلاغہ فصحاء کا چشمہ ہے، اور بلغا و علما کا آشیانہ ہے۔

دَرَجُ عُقودِ رِقابِ أَرْبابِ التُّقى

في دَرَجٍ مِنْ غَيْرِ ما اسْتِثْناءِ

یہ پرہیزگاروں کی فضیلتوں کے ہار ہیں، جو بغیر کسی استثنا کے یکساں طور پر اس کتاب میں رکھ دیے گئے ہیں،

في طَيِّهِ كُلُّ العُلومِ كَأَنَّهُ

الجَفْرُ المُشارُ إِلَيْهِ في الأَنْباءِ

اس کے اندر سب علوم چھپے ہوئے ہیں، گویا وہی "جفر” ہے جس کی خبر دی گئی ہے۔

مَنْ كانَ يَسْلُكُ نَهْجَهُ مُتَشَمِّرًا

أَمِنَ العِثارَ وَفازَ بِالعَلْياءِ

جو اس کے راستے پر محنت و عزم سے چلے، وہ لغزشوں سے محفوظ رہا اور بلندیوں کو پا گیا۔

غُرَرٌ مِنَ العِلْمِ الإِلَهِيِّ انْجَلَتْ

مَنْظومَةً تَجْلُو ضِياءَ ذَكاءِ

اس میں الٰہی علم کے تابندہ موتی نمایاں ہیں، جو گوہر آویزاں کی مانند ذہانت کی روشنی بکھیرتے ہیں۔

وَيَفُوحُ مِنْها عَبَقَةٌ نَبَوِيَّةٌ

لا غَرْوَ قَدْعاً مِنْ أَديمِ سَنَاءِ

اس سے نبوی خوشبو مہکتی ہے، یہ تعجب کی بات نہیں، یہ تو بس نور کی سطح سے ایک معمولی جھلک ہے۔

رَوْضٌ مِنَ الحِكَمِ الأَنيقَةِ جادَهُ

جُودٌ مِنَ الأَنْوارِ لا الأَنْواءِ

یہ نازک اور لطیف حکمتوں کا باغ ہے، یہ فیض و عطا آسمانی روشنیوں کی کرنوں سے ہے، نہ کہ توہماتِ نجومی کی نسبت سے ۔

أَنْوارُ عِلْمِ خَليفَةِ اللهِ الَّذي

هُوَ عِصْمَةُ الأَمْواتِ وَالأَحْياءِ

یہ انوار، اللہ کے خلیفہ کے علم کے ہیں، جو زندوں اور مردوں کی پناہ ہیں۔

وَجَذيلُها وَعُذيقُها مُتَرَجِّبًا

وَمُحَكَّكًا جِدًّا بِغَيْرِ مِراءِ

انوارِ علم کے بڑے ستون اور چھوٹی شاخیں (سب کی سب) ہیبت زدہ اور نہایت آزمودہ ہیں، اور یہ بات کسی اختلاف کے بغیر ہے۔

مِشْكاةُ نورِ اللهِ خازِنُ عِلْمِهِ

مُخْتارُهُ مِنْ سُرَّةِ البَطْحاءِ

یہ اللہ کے نور کا چراغدان ہے، اس کے علم کا خازن ہے، اور بطحا کی پاکیزہ نسل میں سے برگزیدہ ہے۔

وَهْوَ ابْنُ بَجْدَتِهِ عَلَيْهِ تَهَدَّلَتْ

أَغْصانُهُ مِنْ جُمْلَةِ الأُمَراءِ

وہ اپنی اصل و جڑ کا بیٹا ہے، اس درختِ عظمت کی شاخیں، جو امراء و سردار تھے، جھک پڑیں۔

وَوَصِيُّ خَيْرِ الأَنْبِياءِ اخْتارَهُ

رَغْمًا لِتَيْمٍ أَرْذَلِ الأَعْداءِ

وہ بہترین نبی کا وصی ہے، جسے اللہ نے چنا، چاہے قبیلہ تیم کے سب سے پست دشمنوں کو یہ کتنا ہی ناگوار کیوں نہ گزرا ہو۔

صَلَّى الإِلَهُ عَلَيْهِما ما يَنْطَوي

بَرْدُ الظَّلامِ بِنَشْرِ كَفِّ ضِياءِ

اللہ کی درود و رحمت ہو ان دونوں (نبی و وصی) پر، جب تک کہ اندھیروں کو روشنی کی کرنیں چاک کرتی رہیں۔

وَعَلى سَليلِهِما الرَّضيِّ مُحَمَّدٍ

قُطْبُ السِّباقِ جَوىً مِنَ الفُصَحاءِ

اور درود ہو ان کے برگزیدہ نواسے محمد (امام محمد بن علی الباقرؑ یا امام محمد الجوادؑ)، جو فصحا میں سبقت کے محور اور پیشوا ہیں۔

3 : شاعر کا نام معلوم نھیں ہے

نَهْجُ البَلاغَةِ مَنْهَجُ البُلَغاءِ

وَمَلاذُ ذي حَصْرٍ وَذي إِعْياءَ

نہج البلاغہ فصاحت و بلاغت والوں کا راستہ ہے۔ اور عاجز و تھکے ماندے کے لیے پناہ گاہ ہے۔

فيها مَعانٍ في قَوالِبَ أُحْكِمَتْ

الهِدايَةُ كَالنَّجْمِ في الظُّلْماءِ

اس میں ایسے معانی ہیں جو مضبوط قالب میں ڈھالے گئے ہیں۔ ہدایت ایسے ہے جیسے اندھیروں میں ستارہ۔

وَتَضَمَّنَتِ الكَلِماتُ في إِيجازِها

بِذَواتِها بِجَوامِعِ العَلْياءِ

اس کے مختصر کلمات اپنے اندر بلند و عالی معانی کے جامع نکات کو سموئے ہوئے ہیں ۔

صَلّى الإِلـهُ عَلى النَّبِيِّ مُحَمَّدٍ

وَعَلى عَلِيٍّ ذي عُلا وَإِخاءِ

اللہ کی رحمت و درود ہو نبی محمد پر۔ اور علی پر جو عظمت اور بھائی چارے کے مالک ہیں۔

وَالآخَرُ نَهْجُ البَلاغَةِ هذا

سَيِّدُ الكُتُبِ تاجُ الرَّسائِلِ وَالأَحْكامِ وَالخُطَبِ

اور یہ نہج البلاغہ تمام کتابوں کا سردار ہے۔ یہ خطبات، احکام اور رسائل میں سب سے اعلیٰ اور سب سے زینت بخش ہے ۔

كَمْ فيهِ مِنْ حِكْمَةٍ غَرّاءَ بالِغَةٍ

وَمِنْ عُلومٍ إِلَهِيٍّ وَمِنْ أَرَبِ

اس میں کتنی ہی درخشاں اور گہری حکمتیں ہیں۔ اور کتنے ہی الٰہی علوم اور اعلیٰ مقاصد ہیں۔

وَمِنْ دَواءٍ لِذي داءٍ وَعافِيَةٍ

لِذي بَلاءٍ وَمِنْ روحِ الَّذي تَعِبَ

یہ بیماری والے کے لیے دوا اور شفا ہے۔ اور آزمائش والے کے لیے راحت اور تھکے ھوئےکے لیے سکون ہے۔

فيهِ كَلامُ وَلِيِّ اللهِ حَيْدَرَ

مِنْ يَمينِهِ في عَطاءِ المالِ يُسْتَجَبُ

اس میں اللہ کے ولی حیدر کا کلام ہے۔جن کے دائیں ہاتھ سے عطا کیا گیا مال قبول کیا گیا ہے۔

وَصِيُّ خَيْرِ عِبادِ اللهِ كُلِّهِمُ

مُخْتارُ رَبِّ البَرايا سَيِّدُ العَرَبِ

وہ، تمام بندگانِ خدا کے سردار (رسول ﷺ) کے وصی ہیں؛ جو اللہ کی طرف سے منتخب کیے گئے ہیں؛اور تمام عرب کے سید و سردار ہیں ۔

عَلِيٌّ المُرْتَضى مَنْ في مَوَدَّتِهِ

تُرْجى النَّجاةُ لِيَوْمِ الحَشْرِ وَالرُّعْبِ

علی مرتضیٰ، جن کی محبت قیامت اور خوف کے دن نجات کی امید ہے۔

فَمَنْ يُوالِيهِ مِنْ صِدْقِ الجَنانِ

فَفِي الجِنانِ طُنُبٌ فَوْقَ السَّبْعَةِ الشُّهُبِ

پس جو دل کی سچائی سے ان کی ولایت کو اپنائے۔وہ جنت میں سات بلند آسمانی ستاروں سے بھی اوپر خیمہ زن ہوگا۔

وَمَنْ يُعاديهِ في نارِ الجَحيمِ هَوى

وَ عاشَ ما عاشَ في وَيْلٍ وَفي حَرْبِ

اور جو اس سے دشمنی کرے وہ جہنم کی آگ میں گرا۔ اور جتنی دیر زندہ رہا، مصیبت اور جنگ میں جیا۔

قَدِ امْتَزَجَتْ بِقَلْبي حُبُّهُ فَجَرى

في النَّفْسِ مَجْرى دَمي في اللَّحْمِ وَالعَصَبِ

اس کی محبت میرے دل میں یوں گھل مل گئی ہےکہ وہ میری جان میں ایسے رواں ہے جیسے گوشت اور رگوں میں خون۔

صَلَّى عَلَيْهِ إِلـهُ الخَلْقِ خالِقُنا

رَبُّ الوَرىٰ وَعَلى أَبْنائِهِ النُّجُبِ

اللہ، جو ہمارا اور تمام مخلوقات کا خالق اور تمام جہانوں کا رب ہے، اس پر درود بھیجے۔ اور اس کی پاکیزہ اولاد پر بھی رحمتیں نازل کرے۔

وَزادَهُ في جِنانِ الخُلْدِ مَنْزِلَةً

وَرُتْبَةً وَعُلا مَعْلُوًّا عَلى الرُّتَبِ

اور اللہ اسے جنتِ جاوید میں بلند مقام عطا کرے۔ اور اس کا درجہ تمام درجوں پر برتر اور بلند رکھے

4: شاعر کا نام معلوم نھیں ہے

نَهْجُ البَلاغَةِ نَهْجُ الفَضْلِ وَالأَدَبِ

وَنَهْجُ كُلِّ هُدًى يَبْغِيهِ ذو الأَدَبِ

نہج البلاغہ فضیلت اور ادب کا راستہ ہے۔ اور وہ ہر اس ہدایت کا راستہ ہے جسے صاحبِ ادب طلب کرتاھے۔

في ضِمْنِهِ كَلِمٌ في ضِمْنِها حِكَمٌ

تَشْفِي القُلوبَ مِنَ الأَدْواءِ وَالرِّيَبِ

اس میں ایسے کلمات ہیں جن کے اندر حکمتیں پوشیدہ ہیں۔جو دلوں کو بیماریوں اور شکوک سے شفا بخشتے ہیں

يَحْوِي شَوارِدَ أَلْفاظٍ مُهَذَّبَةً

قَدْ أَفْحَمَتْ فُصَحاءَ العَجَمِ وَالعَرَبِ

یہ مہذب اور نایاب الفاظ کو سمیٹے ہوئے ہےجنہوں نے عجم اور عرب کے فصحاء کو لاجواب کر دیا۔

إِنْ قَسْتَهُ بِكلامِ النّاسِ مُمتَحِنًا

فَالنَّبْعُ قَدْ قَسْتُهُ يَوْمًا إِلى الغَرْبِ

اگر تم اسے لوگوں کی باتوں سے پرکھوتو میں نے ایک دن اس بلند و پُرعظمت درخت کو مغرب کی سمت میں ناپ کر اس کی وسعت اور بلندی کا اندازہ لگایا۔

مَنْ كانَ مُقْتَبِسًا مِنْهُ فَوائِدَهُ

فَقَدْ عَلا رُتَبًا ناهِيكَ مِنْ رُتَبِ

جو کوئی اس سے فوائد اخذ کرےوہ بلند درجوں پر پہنچ جاتا ہے، اور کیا ہی عظیم درجے ہیں۔

5: سید ضیاء الدین ابو الرضا فضل اللہ راوندی، تاریخ وفات: 571ھجری

نَهْجُ البَلاغَةِ نُورُهُ

لِذَوِي البَلاغَةِ واضِحٌ

نہج البلاغہ کا نور اہلِ بلاغت کے لیے بالکل روشن ہے۔

وَكلامُهُ لِكلامِ أَرْبابِ

الفَصاحَةِ فاضِحٌ

اس کا کلام فصاحت والوں کے کلام پر غالب اور غالباً رسوا کرنے والا ہے۔

العِلْمُ فيهِ زاخِرٌ،

وَالفَضْلُ فيهِ راجِحٌ

اس میں علم کا سمندر موجزن ہے اور فضیلت اس میں نمایاں اور برتر ہے۔

وَغَوامِضُ التَّوْحيدِ فيهِ

جَميعُها لَكَ لائِحٌ

توحید کے مشکل نکات سب اس میں کھل کر سامنے آتے ہیں

وَوَعيدُهُ مَعَ وَعْدِهِ

لِناسٍ طُرًّا ناصِحٌ

اس کی وعید اور وعدہ دونوں تمام انسانوں کے لیے مخلصانہ نصیحت ہیں۔

تَحْظى بِهِ هذِهِ البَرِيَّةُ

صالِحٌ أَوْ طالِحٌ

اس سے پوری دنیا فائدہ اٹھاتی ہے، چاہے نیک ہو یا بد۔

لا كالعَريبِ وَمالُها،

فالمَالُ غادٍ وَراحِلٌ

یہ (کتاب) قبیلوں کے مال و دولت کی طرح نہیں ہے جو آتا اور جاتا رہتا ہے۔

هِيهاتَ لا يَعْلُو إِلى

مَرْقَى ذُراهُ مادِحٌ

ہائے افسوس! اس کی بلند چوٹی تک کوئی مدّاح نہیں پہنچ سکتا۔

إِنَّ الرَّضِيَّ المُوسَوِيَّ

لِمائِهِ هُوَ مایِحٌ

بیشک رضی موسوی (شریف رضی) ہی ہے جو اس کے چشمے سے سیراب ہوا ہے۔

لاقَتْ بِهِ وَيَجْمَعُهُ

عَدَدُ القَطارِ مَدائِحُ

اس کی مدح و تعریف کے اشعار ایسے ہیں جیسے بارش کے قطروں کی بے شمار تعداد

6: شاعر کا نام معلوم نھیں ہے

كِتابٌ فيهِ آياتُ المَلاحةِ

عَلى نَهْجِ البَلاغَةِ وَالفَصاحَةِ

وہ کتاب جس کے صفحات حسن و لطافت کی آیات سے آراستہ ہیں، اور جس کا ہر جملہ بلاغت و فصاحت کے سانچے میں ڈھلا ہوا ہے۔

7: ادیب عبدالرحمٰن بن الحسین

نَـهجُ البَلاغَةِ نِعْمَ الذُّخرُ والسَّنَدُ

وَفِيهِ لِلمُؤمِنِينَ الخَيرُ وَالرَّشَدُ

نہج البلاغہ بہترین ذخیرہ اور مضبوط سہارا ہے، اس میں مؤمنین کے لیے بھلائی اور ہدایت ہے۔

عَيْنُ الحَيَاةِ لِمَنْ أَضْحَى يُـؤَمِّلُهَا

يَا حَبَّذَا مَعْشَرًا فِي مَائِهَا وَرَدُوا

یہ حیات کا چشمہ ہے اس کے لیے جو غور و فکر کرے، کتنا عظیم اور مبارک ہے وہ گروہ جو اس کے چشمۂ فیض سے سیراب ہوا ۔

مَا إِنْ رَأَتْ مِثْلَهَا عَيْنٌ وَلَا سَمِعَتْ

أُذْنٌ وَلَا كَتَبَتْ فِي العَالَمِينَ يَدُ

نہ کسی آنکھ نے اس جیسا دیکھا، نہ کسی کان نے اس جیسا سنا، اور نہ ہی دنیا کے لکھنے والوں نے ایسا کچھ لکھا۔

يَدٌ شَرِبَ رُوحِي عِندَ كَتْبتِهَا

وَكَانَ لِلرُّوحِ مِنْ آثَارِهَا مَدَدُ

جب میں نے اس کو لکھا تو میری روح نے گویا سیرابی پائی،اور روح کے لیے اس کے آثار سے مدد اور قوت حاصل ہوئی۔

صَلَّى الإِلَهُ عَلَى مَنْ كَانَ مَنْطِقُهُ

رُوحًا تَزَايَدَ مِنْهَا الرُّوحُ وَالجَسَدُ

اللہ کی رحمت ہو اس پر کہ جس کی گفتار ایسی روح تھی، کہ جس سے روح و جسم دونوں میں زندگی بڑھتی ہے۔

8: یعقوب بن احمدِ نیشاپوری ، تاریخ وفات:474ھجری

نَهجُ البَلاغَةِ نَهجٌ مَهْيَعٌ جُدَدٌ

لِمَنْ يُريدُ عُلُوّاً ما لَهُ أَمَدُ

نہج البلاغہ ایک ایسا واضح اور کھلا راستہ ہے جو ہمیشہ تازہ رہتا ہے۔جو کوئی بلندی اور رفعت چاہے، اس کے لئے یہ ایک ایسی بلندی ہے جس کی کوئی انتہا نہیں۔”

يا عادِلاً تَبغِي بالهَوى رَشَدا

اعدِل إليهِ ففيهِ الخيرُ و الرَّشَدُ

اے وہ شخص جو خواہشِ نفس کے ذریعے ہدایت ڈھونڈ رہا ہے!اس (نہج البلاغہ) کی طرف آجاؤ، کیونکہ اسی میں بھلائی اور ہدایت ہے۔

وَاللهِ وَاللهِ التّارِكِيهِ عَمُوا

عَن شافِياتٍ عِظاتٍ كُلُّها سَدَدُ

خدا کی قسم! خدا کی قسم! جو لوگ اسے (نہج البلاغہ کو) چھوڑتے ہیں وہ اندھیروں میں بھٹک جاتے ہیں۔ شفا دینے والی نصیحتوں سے ، جو ساری کی ساری درستگی پر ہیں ۔

كَأَنَّها العِقدُ مَنظوماً جَواهِرُها

صَلّى عَلى ناظِمِها رَبنَا الصَّمَدُ

گویا یہ (نہج البلاغہ) ایک ہار ہے جس میں قیمتی جواہرات پروئے گئے ہوں ٰ، ہمارا ربّ صمد اس کے ناظم (امام علی علیه السلام) پر رحمت و درود نازل کرے۔

ما حالَهُم دونَها إن كُنتَ تُنصِفُني

إلّا العَنودُ و إلّا البَغيُ و الحَسَدُ

اگر تم انصاف کرو تو اس (نہج البلاغہ) تک پہنچنے میں لوگوں کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں سوائے ضدی، سرکش، ظلم کرنے والوں اور حسد کرنے والوں کے.

9: علی بن احمد الفنجکردی نیشاپوری (معروف بہ ابوالحسن علی بن احمد پانچگردی) تاریخ وفات: 513 ھجری

نَهْجُ البَلاغَةِ مِنْ كَلامِ المُرْتَضى

جَمَعَ الرَّضِيُّ المُوسَوِيُّ السَّيِّدُ

نہج البلاغہ، حضرت مرتضیٰؑ (علیؑ) کے کلام سے ہے، جسے سید رضی موسوی نے جمع کیا۔

بهرُ العُقولِ بِحُسنِهِ وبَهائِهِ

كَالدُّرِّ فَصْلٌ نَظْمُهُ بِزُبَرْجَدِ

اس کی حسن و جمال نے عقلوں کو حیران کر دیا، گویا موتیوں کی لڑی ہے جو زمرد سے پروئی گئی ہو۔

أَلْفَاظُهُ عَلوِيَّةٌ لَكِنَّهَا

عَلوِيَّةٌ حَلَّتْ مَحَلَّ الفَرْقَدِ

اس کے الفاظ علوی ہیں، مگر حقیقت میں علوی ایسے کہ آسمان کے درخشاں ستارے کی جگہ پر جلوہ گر ہوئے۔

فِيهِ لِأَرْبابِ البَلاغَةِ مُقْنِعٌ

مَنْ يُغْنِ بِاسْتِظْهَارِهِ يَسْتَسْعِدْ

اس میں اہلِ بلاغت کے لیے کافی سرمایہ ہے، جو اسے حفظ کرے، وہ سعادت پاتا ہے

العُيُونُ إِلَيْهِ صُوَراً إِنْ تَلا

وَتَرَى مِنْهُ كِتَاباً رَائِعاً فِي مَشْهَدِ

جب وہ قرآن پڑھتا ہے تو ساری آنکھیں اسی پر جم جاتی ہیں، اور اس کی زبان سے گویا ایک عظیم کتاب روشن محفل میں جلوہ گر ہوتی ہے۔

أَعْجَبَ بِهِ كَلِمَاتُهُ قَدْ نَاسَبَتْ

كَلِمَاتِ خَيْرِ النَّاسِ طُرّاً أَحْمَدَ

اس کے الفاظ باعثِ تعجب ہیں کہ یہ ایسے ہم آہنگ ہیں، جیسے تمام انسانوں کے سب سے بہتر، احمدؐ کے کلمات۔

نِعْمَ المَعِينُ عَلَى الخِطَابَةِ لِـلفَتَى

وَبِهِ إِلَى طُرُقِ الفَصَاحَةِ يَهْتَدِي

یہ نوجوان کے لیے خطابت میں بہترین مددگار ہے، اور اسی سے فصاحت کی راہیں کھلتی ہیں۔

وَأَجِدُ يَعقُوبَ بْنَ أَحمَدَ ذِكرَهُ

بِعُلُوِّ هِمَّتِهِ وَطِيبِ المَولِدِ

میں دیکھتا ہوں کہ یعقوب بن احمد نے اس کا ذکر کیا، اپنی بلند ہمتی اور پاکیزہ نسل کی بدولت۔

وَدَعَا إِلَيهِ مُخلِصاً أَصحَابَهُ

فِعلَ الحَنِيفِيِّ الكَرِيمِ المُرشِدِ

اور اس نے اپنے اصحاب کو اخلاص کے ساتھ اس کی طرف بلایا، جیسے ایک حنیف و کریم اور رہنمائی کرنے والا شخص بلاتا ہے۔

العَاقِلُ النُّدْبُ الأَدِيبُ المُكتَسِي

لَيسَ العَفَافَ النَّاصِحَ المُتَوَدِّدَ

عاقل، شجاع، ادیب، اور (خوبیوں سے) آراستہ شخص وہ نہیں ہے جو محض پاکدامن، خیرخواہ اور محبت کرنے والا ہو۔

ثُمَّ ابنُهُ الحَسَنُ المُوَفَّقُ بَعدَهُ

فِيهِ بِسُنَّتِهِ الرَّضِيَّةِ يَقتَدِي

پھر اس کے بعد اس کا فرزند حسن، کامیاب ہوا، جو اس (پدر کی) پسندیدہ سنت پر عمل پیرا ہوا۔

كَم نُسخَةٍ مَقرُوءَةٍ حَصَلَتْ بِهِ

مَسمُوعَةَ الأُوَلِي النُّهَى وَالسُّؤدُدِ

کتنی ہی پڑھنے لائق نسخے اس (کتاب/اثر) کے ذریعے حاصل ہوئے، جو صاحبانِ عقل و فضیلت نے سن کر محفوظ کیے۔

يَا رَبِّ قَرِّبهُ وَأَكرِم نُزُلَهُ

وَاحشُرهُ فِي رَهطِ النَّبِيِّ مُحَمَّدٍ

اے پروردگار! اسے (مصنف/ممدوح کو) اپنے قریب کر اور اس کے ٹھکانے کو عزت عطا کر، اور اسے نبی محمد ﷺ کے گروہ میں محشور فرما۔

وَأَطِل بَقَاءَ سَلِيلِهِ الحَسَنِ الفَتَى

فِينَا بِرَغمِ الكَاشِحِينَ الحَسَدِ

اور اس کے نیک فرزند حسن کی عمر ہمارے درمیان دراز فرما،حسود دشمنوں کے کینے اور بغض کے باوجود۔

خُذهُ أَبَا الحَسَنِ الفَتَى مُستَمسِكاً

بِعُرَاهُ وَارْقَ إِلَى المَجَرَّةِ وَاصعَدْ

اے ابو الحسن جوان! اس (کتاب/نسب/دین) کو مضبوطی سے تھام لو،اور بلندیوں کی طرف، کہکشاں تک، اوپر چڑھتے چلے جاؤ۔

وَاسهَرْ وَصِلْ وَصُم وَذَاكِرْ وَاستَطِرْ

وَاحفَظْ وَبِرَّ وَزَكِّ وَاسلَمْ وَاسعَدْ

جاگو (عبادت میں)، صلۂ رحمی کرو، روزے رکھو، ذکر کرو اور علم پھیلاؤ، محفوظ رہو، نیکی کرو، پاکیزگی اختیار کرو، سلامتی میں رہو اور سعادت حاصل کرو۔

10: قطب‌الدین محمد بن مسعود بن محمد الکیدری النیشابوری ، تاریخ وفات: 557 ھجری

نَهْجُ البَلاغَةِ نَهْجُ كُلِّ مُسَدَّدٍ

نَهْجُ المَرامِ لِكُلِّ قِرْمٍ أَمجَدِ

نہج البلاغہ ہر سیدھے راستے پر چلنے والے کے لیے راہ ہے، اور ہر بلند مرتبہ، عظمت والے مرد کے مقصد تک پہنچنے کا راستہ ہے۔

يا مَنْ يَبِيتُ وَهَمُّهُ دَرْكَ العُلَى

فَاسْلُكْهُ تَحْظَ بِما تَرُومُ وَتَزْدَدِ

اے وہ شخص جو شب بھر بلندیوں کو پانے کی فکر میں رہتا ہے، اس (کتاب) کا راستہ اختیار کر، تاکہ مطلوب کو پا لے اور مزید کمال حاصل کرے۔

إِنْسانُ عَيْنٍ لِلعُلومِ بِأَسْرِها

مَضْمُونُهُ وَذَوُو البَصائِرِ شَهِدُوا

یہ (کتاب) تمام علوم کی آنکھ ہے، ان سب کا جوہر اس میں جمع ہے، اور صاحبانِ بصیرت اس پر گواہی دیتے ہیں۔

بَهْرَ النُّجُومِ الزُّهْرِ بَلْ شَمْسِ الضُّحى

مَعْنىً وَأَلْفاظاً بِرَغْمِ الحَسَدِ

اس کے معنی اور الفاظ کی روشنی چمکتے ستاروں سے بڑھ کر ہے، بلکہ دوپہر کے سورج کی مانند ہے— چاہے حسد کرنے والوں کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔

يَنْبُوعُ مَجْمُوعِ العُلومِ رُمِيَ بِهِ

نَحْوَ الأَنامِ لِيَقْتَفِيَهُ المُهْتَدِي

یہ تمام علوم کا چشمہ ہے جو لوگوں کی طرف روانہ کیا گیا، تاکہ ہدایت پانے والا اس کی پیروی کرے۔

فِيهِ لِطُلّابِ النِّهاياتِ مَقْنَعٌ

فَلْيَلْزَمَنَّهُ ناظِرٌ مُسْتَرْشِدِ

اس میں حقیقت و مقصد کے طالب کے لیے کفایت ہے، لہٰذا جویائے ہدایت کو لازم ہے کہ اسے اختیار کرے۔

صَلّى الإِلَهُ عَلى مُنَظِّمِهِ الَّذِي

فاقَ الوَرى بِكَمَالِهِ وَالْمُحَمَّدِ

اللہ درود بھیجے اس کے مرتب کرنے والے پر، جو اپنی کمالات اور اپنی محمدی نسبت کے سبب تمام لوگوں پر فائق ہے

11: افضل‌الدین حسن بن فادار قمی ، تاریخ وفات: چھٹی صدی کا آخر

مُتَصَفِّحُ نَهْجِ البَلاغَةِ وارِدٌ

عَلَلا يَزِيدُ عَلَى الأَلَذِّ البارِدِ

جو شخص نہج البلاغہ کا مطالعہ کرتا ہے، وہ یوں لطف اندوز ہوتا ہے جیسے کوئی پیاسا گھونٹ گھونٹ ٹھنڈا پانی پیتا ہے— بلکہ اس سے بھی زیادہ لذیذ۔

وارِدٌ شُرْبَ بَلاغَةٍ لاقى بِهِ

رِيّاً غَلِيلَ مُوافِقٍ وَمُعانِدِ

وہ بلاغت کے چشمے سے سیراب ہونے والا ہے، جس کی بدولت دوست اور دشمن دونوں کی تشنگی بجھ جاتی ہے ۔

مُتَنَزَّهٌ فِي رَوْضَةٍ قَدْ نُوِّرَتْ

جَنَباتُها بِشَواهِدٍ وَشَوَارِدِ

یہ ایک ایسے باغ کی سیر ہے، جس کے اطراف و کنارے دلائلِ محکم اور نکاتِ نادر سے روشن ہیں۔

وَمَسارِحُ نَشْرِ الحَيا بِأَعْرَاصِها

راياتُهُ فَمَلأْنَ عَيْنَ الزَّائِدِ

اس کے میدانوں میں زندگی کی بارشیں پھیلتی ہیں، اور اس کے جھنڈے لہراتے ہیں جو ہر متلاشی آنکھ کو سیراب کر دیتے ہیں۔

حُكْمٌ عَلَيْها مَسْحَةُ العِلْمِ الإِلَهِيِّ

المُصَفَّى مِنْ مَعابِ النَّاقِدِ

اس پر الٰہی علم کی ایسی چھاپ ثبت ہے، جو ہر عیب اور نقاد کے اعتراض سے پاک و منزہ ہے۔

دُرَرٌ بِها عَبَقَ النُّبُوَّةُ فَاغِمٌ

إِذْ كانَ سُقْياها بِماءٍ واحِدِ

اس کے موتیوں میں نبوت کی خوشبو مہک رہی ہے، کیونکہ اس کا سارا فیض ایک ہی چشمے (وحیِ واحد) سے سیراب ہے۔

قَرِينُ مَرَقِ بَلاغَةٍ لِمُرِيدِها

وَفُتِحْنَ مُغْلَقَ بابِها لِلرَّاشِدِ

یہ بلاغت کے لباس کا قرین ہے، جو طالبین کے لیے تیار ہے، اور اس کے دروازے کے قفل ہدایت یافتہ لوگوں پر کھل جاتے ہیں۔

وَمَواعِظٌ وَزَواجِرُ وَمَراشِدُ

وَفَوائِدُ وَتَوائِمُ فَوارِدِ

یہ مواعظ، تنبیہات، ہدایت کے راستے، فوائد اور یکجا بہتے ہوئے چشموں کی مانند فیوضات پر مشتمل ہے۔

12: حسن بن یعقوب بن احمد بن محمد نیشاپوری ، تاریخ وفات:517ھجری

نهجُ البلاغةِ دَرجٌ ضَمَّنَهُ دُرَرٌ

نهجُ البلاغةِ روضٌ جادَهُ دُرَرٌ

نہج البلاغہ ایک ایسا صندوق ہے جس میں موتیوں کو سمیٹ لیا گیا ہے۔نہج البلاغہ ایک ایسا باغ ہے جس پر موتیوں کی بارش برسی ہے۔

نهجُ البلاغةِ وَشْيٌ حاكَهُ صُنْعٌ

مِن دونِ موشِيَةِ الدِّيباجِ وَالحِبَرِ

ہج البلاغہ ایک معدن ہے جس میں سونےکا نقش ہے جسے خود (خدا کی) صنعت نے بُنا ہے،ریشم اور رنگین کپڑوں کی سجاوٹ کے بغیر۔”

أو جَوْنَةٌ مُلِئَتْ عِطْراً إذا فُتِحَتْ

خَيْشُومُنا فَغَمَدَتْ ريحٌ لها ذَفرُ

یا پھر یہ ایک ایسا ڈبہ (عطر کی شیشی) ہے جو خوشبو سے بھر دیا گیا ہو، جب وہ کھولا جائے تو ہماری ناک میں ایسی خوشبو بھر جاتی ہے جس کی خوشبو ہر طرف پھیل جاتی ،ہے

صَدَّقتُكُمْ سادَتي وَالصِّدْقُ عادَتُنا

وَهذِهِ شيمَةٌ ما عابَها بَشَرُ

میں نے آپ حضرات (اے میرے آقاؤں) کی تصدیق کی ہے، اور سچائی تو ہماری عادت ہے۔ اور یہ ایسی خصلت ہے جسے کسی بشر نے کبھی عیب نہیں کہا

صَلَّى الإلهُ على بَحرٍ غَوَارِبُهُ

رَمَتْ بهِ نُحورَنا ما لألأَ القمر

خدا کی رحمت ہو اس بحرِ پر جس کے اندر موتی پوشیدہ ہیں، جس پر ہمارے سینوں نے ٹوٹ کر جھکاؤ کیا ہے، جیسے کہ چمکتا ہوا چاند اپنی روشنی بکھیرتا ہے۔

13: شاعر کا نام معلوم نھیں ہے

كلامٌ إِذا ما قِيسَ بِالدُّرِّ قِيمَةً

وَحُسْناً بِهِ يَوْماً فَقَدْ وُصِفَ الدُّرُّ

یہ کلام جب قیمت و قدر کے لحاظ سے موتیوں کے ساتھ تولا جائے، اور ایک دن حسن و جمال کے اعتبار سے موتیوں کی تعریف کی جائے، تو یہی کلام موتیوں کی حقیقت بیان کرتا ہے۔

وَإِنْ حَيَّرَ الأَلْبابَ تِيهاً فَإِنَّني

أُنَزِّهُهُ عَنْ أَنْ أَقُولَ لَهُ سِحْرُ

اگرچہ یہ (کلام) عقلوں کو اپنی حیرت انگیزی سے مبہوت کر دیتا ہے، لیکن میں اسے جادو کہنا اپنی زبان کے شایانِ شان نہیں سمجھتا۔

14: شیخ جعفر الہلالی، تاریخ وفات:1440 ھجری

يا بُناةَ العِرفانِ في دَولةِ

الإِسلامِ أَنتُم عِمادُنا المَذخورُ

اے معرفت و عرفان کے معمارو! اسلامی ریاست میں تم ہی ہمارا محفوظ سرمایہ اور پائیدار ستون ہو۔

ثَورةَ الفِكرِ فيهِ فَجَّرتُموها

يَقظَةً حَولَها الزَّمانُ يَدورُ

تم نے اس (اسلامی معاشرے) میں فکری انقلاب کو بھڑکایا ہے، ایک ایسی بیداری جس کے گرد زمانہ گردش کر رہا ہے۔

بارَكَ اللهُ فيكُم ذاكَ المَسعى

وَوافكُم بِذاكَ الحُبورُ

اللہ تمہاری اس کوشش میں برکت ڈالے، اور تمہیں اسی خوشی و مسرت سے نوازے۔

إنَّ إِحياءَكُم كـ(نَهجِ) عَلِيٍّ

هوَ وَالحَقُّ مَكسَبٌ مَشكورُ

یقیناً تمہارا (امام) علی کے "نہج” کو زندہ کرنا، حقیقت میں ایک قیمتی سرمایہ اور شکریہ کے لائق کامیابی ہے۔

لَم يَكُن لِلبَلاغَةِ اليَومَ نَهجاً

بَل لَدى العِلمِ ذاكَ بَحرٌ غَزيرُ

آج کے دن کے لیے یہ محض بلاغت کا راستہ نہیں، بلکہ علم کا وہ گہرا اور وسیع سمندر ہے۔

هوَ نَهجُ العَقيدَةِ الصُّلبَةِ الشَّمَّاءِ

يَنهارُ مِن صَداها الكَفورُ

یہ تو پختہ اور بلند عقیدے کا راستہ ہے، جس کی گونج سے کفار اور انکار کے قلعے ڈھے جاتے ہیں۔

هوَ نَهجُ الآدابِ وَالخُلقِ السّامي

بِهِ الرّوحُ تَزدَهي وَالضَّميرُ

یہ آداب اور بلند اخلاق کا راستہ ہے، جس سے روح جلا پاتی ہے اور ضمیر نکھرتا ہے۔

هوَ نَهجٌ لِلحُكمِ يَبني السِّياساتِ

نِظاماً لَهُ الهُدى دُستورُ

یہ حکمرانی کا راستہ ہے جو سیاستوں کو بنیاد بخشتا ہے، اور جس کا نظام ہدایت کو اپنا دستور بناتا ہے۔

هوَ هذا نَهجُ البَلاغَةِ حَقّاً

مِن (عَلِيٍّ) بَيانُهُ مَسطورُ

یہ در حقیقت "نہج البلاغہ” ہے، جس کا بیان علیؑ کے قلم سے ثبت ہے۔

عَجَباً ذاكَ التُّراثُ بِهذا الحَجمِ

يُقصى وَمَن سِواهُ نَميرُ

کمال تعجب ہے کہ ایسا عظیم سرمایہ اور وسیع تراث (ورثہ) کنارے لگایا جائے، اور اس کے سوا دوسری چھوٹی چیزوں کو (اہمیت دی جائے اور) نوش کیا جائے۔

ما الَّذي كانَ قد جَناهُ (عَلِيٌّ)

عِندَ قَومٍ حَتّى استَحَرَّت صُدورُ

آخر وہ کیا تھا جو علیؑ نے اس قوم کے خلاف کیا، کہ ان کے سینے (کینہ و بغض سے) جل اٹھے؟

أَلانَ الحَقُّ الَّذي قد رَعاهُ

كانَ مُرّاً وَالجاحِدونَ كَثيرُ

کیا وہی حق جسے علیؑ نے سنبھالا اور قائم رکھا، ان کے لیے کڑوا تھا؟ جبکہ منکر اور جاحد لوگ زیادہ تھے۔

يا لَها أُمَّةً أَضاعَت حِجاها

حَيثُ راحَت خَلفَ السَّرابِ تَسيرُ

افسوس اس امت پر کہ اس نے اپنی عقل و خرد کو ضائع کر ڈالا، اور جا کر سراب کے پیچھے چلنے لگی۔

وَلَديها مِن ثَورَةِ الفِكرِ ما يُغني

وَلكِن أَينَ السَّميعُ البَصيرُ؟!

حالانکہ اس کے پاس فکری انقلاب کی وہ دولت موجود تھی جو کافی تھی، لیکن کہاں ہے وہ سننے والا اور دیکھنے والا؟

فَهِيَ تَعشو عَنِ الحَقيقَةِ في المَسرى

وَفي بَيتِها السِّراجُ المُنيرُ

وہ (امت) حقیقت سے اندھی ہو کر راہ میں بھٹک رہی ہے، جبکہ اس کے اپنے گھر میں چراغِ منیر (نہج البلاغہ) روشن ہے۔

أَخَذَت تَطلُبُ السَّواقِيَ البَعيداتِ

وَفي جَنبِها تَفيضُ البُحورُ

وہ دور دراز کی چھوٹی ندیوں کو ڈھونڈنے لگی، جبکہ اس کے پہلو میں سمندر بہہ رہے تھے۔

إنَّ هذا هوَ الخَسارُ وَهَل يُفلِحُ

قَومٌ قد ماتَ فيهِم شُعورُ

یقیناً یہی تو خسارہ ہے! اور کیا کبھی وہ قوم کامیاب ہو سکتی ہے جس کے اندر شعور مر چکا ہو؟

15: شیخ احمد بن محمد بن جعفر بن احمد البحرانی الأوالی ، تاریخ وفات: آٹھویں صدی کی ابتداء

نَـهْجُ الْبَلَاغَةِ نَهْجٌ أَمْ لِأَحِبَّتِهِ

قَنٌّ بِمِصْبَاحِ نُورِ اللهِ قَدْ نَظَرَا

ھج البلاغہ ایک رہنما راستہ ہے، خاص طور پر امام کے محبین کے لیے؛ یہ ایسا سرچشمہ ہے جو اللہ کے نور کے چراغ سے روشن ہوا ہے، اور جس نے اس کا نظارہ کیا وہ روشنی پاتا ہے۔

إذْ فِيهِ مِنَ الْمُشْكِلَاتِ الْعِلْمُ أَعْظَمُهَا

فَمَا يَحُ الْغَرْبُ مِنْهُ فَائِزٌ ظَفَرَا

اس میں پیچیدہ ترین علمی مسائل کے حل موجود ہیں، پس جو اس سے سیراب ہوتا ہے وہ کامیابی و فتح پاتا ہے۔

إِذَا تَأَمَّلْتَ أَلْفَاظًا بِهَا نُظِمَتْ

تُخَالُهَا خَالِصَ الْيَاقُوتِ أَوْ دُرَرَا

جب ان الفاظ پر غور کرو جو اس میں جُڑے ہیں، تو انہیں خالص یاقوت یا موتیوں کی مانند سمجھو۔

وَإِنْ نَظَرْتَ بِعَيْنِ الْفِكْرِ قُلْتَ أَرَى

هَذَا كَسَفْرٍ بِهِ الْإِسْلَامُ قَدْ نُصِرَا

اور اگر فکر کی آنکھ سے دیکھو تو کہو گے: یہ وہ پرچم ہے جس کے ذریعے اسلام کو نصرت ملی۔

فَالسَّيْفُ سَيْفُ عَلِيٍّ وَالمَقالُ مَعًا

فَمَنْ تَرى حازَ هذا الفَضْلَ مُفْتَخِرا

تلوار علیؑ کی تھی اور گفتار بھی، دونوں ساتھ، تو بتاؤ، اور کس نے یہ فضیلت پا کر فخر کیا؟

أَلَيْسَ قَدْ قالَ خَيْرُ الخَلْقِ قاطِبَةً

الحَقُّ عِنْدَ عَلِيٍّ أَيْنَ دارَ يُرى

کیا نہیں کہا تھا تمام مخلوقات کے سب سے برتر (پیغمبرؐ) نے: حق ہمیشہ علیؑ کے ساتھ ہے، جہاں بھی وہ ہوں۔

واللهِ ما حادَ عَنْهُ الحاسِدُونَ غِنىً

لَكِنْ نُورُهُم عَنْ نُورِهِ قَصُرا

خدا کی قسم! حسد کرنے والوں نے اس سے کوئی بے نیازی نہ پائی، بلکہ ان کی روشنی اس کے نور کے مقابلے میں ناقص ہے۔

كَمَا تَرى أَعْيُنُ الخُشَّافِ يَقْبِضُها

ضَوْءُ النَّهارِ تَرى أَبْصارَهُمْ غُفَرا

جیسے چمگادڑ کی آنکھوں کو دن کی روشنی بند کر دیتی ہے، یوں ان کی نگاہیں بھی اندھی ہو جاتی ہیں۔

لَمْ يَقْضِ مَوْلايَ مَنْ باراكَ مَنْقَبَةً

مِمّا خُصِصْتَ بِهِ في سَعْيِهِ وَطَرا

میرے مولا نے کبھی تیری کسی فضیلت کو نہیں بھلایا، جو تجھے تیری جدوجہد کے صلے میں عطا کی گئی۔

فاهْ وَاعْجَبًا مِنْ قَوْلِ ذي عِنْدَ

هذا الصَّريمُ يُضاهي الشَّمْسَ وَالقَمَرا

واہ! اور کیا تعجب ہے اُس شخص کی بات پر، جو اس چراغ کو سورج اور چاند کے برابر قرار دیتا ہے۔

16: ابو محمد بن شیخ صنعان، تاریخ وفات:گیارھویں صدی کا آخر تقریبا

نَهْجُ البَلاغَةِ رَوْضَةٌ مَمْطُورَةٌ

بِالنُّورِ مِنْ سُبُحاتِ وَجْهِ الْبارِي

نہج البلاغہ ایک ایسا باغ ہے جو بارانِ رحمت سے سیراب ہے، اور جو اللہ کے جمال کے انوار سے روشن ہے۔

أَوْ حِكْمَةٌ قُدْسِيَّةٌ جُلِّيَتْ بِها

مِرْآةُ ذاتِ اللهِ لِلنُّظّارِ

یا یہ ایک قدسی حکمت ہے جو آشکار ہوئی، اور دیکھنے والوں کے لیے اللہ کی ذات کا آئینہ بن گئی۔

أَوْ نُورُ عِرْفانٍ تَلَأْلَأَ هادِياً

لِلْعالَمينَ مَناهِجَ الأَبْرارِ

یا یہ معرفت کا وہ نور ہے جو چمکا، اور اس نے تمام جہانوں کے لیے نیکوکاروں کے راستے روشن کر دیے۔

أَوْ لُجَّةٌ مِنْ رَحْمَةٍ قَدْ أَشْرَقَتْ

بِالعِلْمِ فَهْيَ تَمُوجُ بِالأَنْوارِ

یا یہ رحمت کا ایک سمندر ہے جو علم کے ساتھ طلوع ہوا، اور انوار کی موجوں سے لبریز ہے۔

خُطَبٌ رَوَتْ أَلْفاظُها عَنْ لُؤْلُؤٍ

مِنْ مائِهِ بَحْرُ الْمَعارِفِ جارِي

یہ خطبات ایسے ہیں جن کے الفاظ گوہرِ درّ کی مانند ہیں، اور جن کا سرچشمہ معارف کے دریا سے بہہ رہا ہے۔

وَتَهَلَّلَتْ كَلِماتُها عَنْ جَنَّةٍ

حُفَّتْ مِنَ التَّوْحيدِ بِالأَنْوارِ

اس کے کلمات یوں ہیں جیسے جنت کی بہار،جنہیں توحید کے انوار نے گھیر رکھا ہے۔

وَكَأَنَّها عَيْنُ الْيَقينِ تَفَجَّرَتْ

مِنْ فَوْقِ عَرْشِ اللهِ بِالأَنْهارِ

گویا یہ ’’عین الیقین‘‘ ہے جو پھوٹ نکلا، عرشِ خدا کے اوپر سے بہنے والی نہروں کی طرح۔

حِكَمٌ كَأَمْثالِ النُّجومِ تَبَلْجَتْ

مِنْ ضَوْءِ ما ضَمَّنَتْ مِنَ الأَسْرارِ

اس کی حکمتیں ستاروں کی مانند درخشاں ہیں، کیونکہ ان میں اسرارِ ربانی کا نور پوشیدہ ہے۔

كَشْفُ الغِطاءِ بَيانُها فَكَأَنَّها

لِلسّامِعينَ بَصائِرُ الأَبْصارِ

اس کے بیانات پردے ہٹا دیتے ہیں، گویا یہ سننے والوں کے لیے آنکھوں کی بینائی ہیں۔

وَتَرى مِنَ الْكَلِمِ الْقِصارِ جَوامِعاً

يُغْنيكَ عَنْ سَفَرٍ مِنَ الأَسْفارِ

اس کے مختصر کلمات جامع و مانع ہیں، جو تمہیں کئی لمبی کتابوں اور سفرناموں سے بے نیاز کر دیتے ہیں۔

لَفْظٌ يَمُدُّ مِنَ الْفُؤادِ سَوادَهُ

وَالْقَلْبُ مِنْهُ بَياضُ وَجْهِ نَهارِ

اس کے الفاظ دل کی سیاہی کو کھینچ لیتے ہیں، اور دل کو دن کے اجالے کی طرح روشن کر دیتے ہیں۔

وَجَلَى عَنِ الْمَعْنى السَّوادَ كَأَنَّهُ

صُبْحٌ تَبلجَ صادِقُ الإِسْفارِ

اس نے مفہوم کی تاریکی کو روشن کر دیا، گویا صبح طلوع ہوئی ہو، اور حق گو نے سب کچھ آشکار کیا ہو۔

مِنْ كُلِّ عاقِلَةٍ الْكَمَالُ عَقيلَةٌ

تَشْتافُ فَوْقَ مَدارِكِ الأَفْكارِ

یہ ہر عقلِ کامل کی ملکہ ہے، جو انسانی فکر کی بلندیوں سے بھی بلند پیاس بجھاتی ہے۔

عَنْ مِثْلِها عَجَزَ الْبَليغُ وَأَعْجَزَتْ

بِبَلاغَةٍ هِيَ حُجَّةُ الإِقْرارِ

ایسی ہے کہ بڑے بڑے بلیغ اس کے آگے عاجز ہیں، کیونکہ اس کی بلاغت ہی حجتِ قطعی ہے۔

وَإِذا تَأَمَّلْتَ الْكلامَ رَأَيْتَهُ

نَطَقَتْ بِهِ كَلِماتُ عِلْمِ الْبارِي

جب تو اس کلام کو غور سے دیکھے گا، تو دیکھے گا کہ یہ علمِ باری کی زبان سے نکلا ہے۔

وَرَأَيْتَ بَحْراً بِالْحَقائقِ طامِياً

مِنْ مَوْجِهِ سُفُنُ الْعُلومِ جَوارِي

تو ایک سمندر دیکھے گا جو حقائق سے لبریز ہے، جس کی موجوں پر علوم کی کشتیاں چل رہی ہیں۔

وَرَأَيْتَ أَنَّ هُناكَ بَرّاً شامِلاً

وَسِعَ الأَنامَ كَديمَةٍ مِدْرارِ

وہ ایک وسیع سرزمین ہے، جو بارش کی طرح سب کو سیراب کرتی ہے۔

وَرَأَيْتَ أَنَّ هُناكَ عَفْوَ سَماحَةٍ

في قُدْرَةٍ تَعْلُو عَلى الأَقْدارِ

وہ عفو اور سخاوت کا منبع ہے، اور ایسی قدرت ہے جو تقدیروں سے برتر ہے۔

وَرَأَيْتَ أَنَّ هُناكَ قَدَراً ماشِياً

عَنْ كِبْرِياَءِ الْواحِدِ الْقَهّارِ

وہاں ایک جاری تقدیر دکھائی دیتی ہے، جو قہار واحد کی کبریائی سے صادر ہوئی ہے۔

قَدَرُ الَّذي بِصِفاتِهِ وَسِماتِهِ

مَمْسوسُ ذاتِ اللهِ في الآثارِ

یہ وہ قدر ہے جو اپنی صفات و نشانیوں میں، آثار میں اللہ کی ذات سے جڑا ہوا ہے۔

مصْبَاحُ نُورِ اللهِ مِشْكَاةُ الْهُدَى

فَتَّاحُ بَابِ خَزَائِنِ الْأَسْرَارِ

یہ وہ چراغ ہے جو اللہ کے نور سے منور ہے، ہدایت کا سرچشمہ ہے، اور جو ہر پوشیدہ راز کے خزانوں کو آشکار کر دیتا ہے۔

صِنْوُ الرَّسُولِ وَكَانَ أَوَّلَ مُؤْمِنٍ

عَبْدَ الإِلَهِ كَصِنْوِهِ الْمُخْتَارِ

یہ رسول کا ہمسر ہے اور سب سے پہلا مؤمن، جس نے اللہ کی بندگی کی جیسے خود برگزیدہ مصطفی ﷺ نے۔

وَبِهِ أَقَامَ اللهُ دِينَ نَبِيِّهِ

وَأَتَمَّ نِعْمَتَهُ عَلَى الْأَخْيَارِ

اور اسی کے ذریعے اللہ نے اپنے نبی کا دین قائم کیا، اور اپنے نیک بندوں پر اپنی نعمت کو کامل کر دیا۔

17: بولس سلامہ (Paul Salameh)

هَذِهِ الْكَفُّ لِلْمَعَارِفِ بَابٌ

مَشْرَعٌ مِنْ مَدِينَةِ الْأَسْرَارِ

یہ ہاتھ علوم و حقائق کا دروازہ ہے، جو اسرار کے شہر کی روشنی سے روشن اور کھلا ہوا ہے۔

تَنشُرُ الذَّرَّ في كِتابٍ مُبِينٍ

سِفْرُ نَهْجِ البلاغَةِ المُختارِ

یہ ہر نقطہ وہر نکتہ کو ایک روشن اور واضح کتاب میں بکھیرتی ہےجو منتخب نہج البلاغہ کی کتاب ہے

هُوَ رَوضٌ مِن كُلِّ زَهرٍ جَنِي

أَطلَعَتهُ السَّماءُ في نُوارِ

یہ ایک ایسا باغ ہے جس میں ہر قسم کے چنے ہوئے پھول ہیں، جسے آسمان نے بہار کے اندر ظاہر کیا ہے۔

فِيهِ مِن نَضرَةِ الوَردِ العَذَارَى

وَالخُزامَى وَالفُلِّ وَالجُلَّنارِ

اس میں گلاب جیسے پھول کی تازگی ہے، اور اس میں خزامی، چمبیلی اور انار کے پھول ہیں

18: سید صدرالدین علی بن ناصر الحسینی السرخسی

لِلَّهِ دَرُّكَ يَا نَهْجَ الْبَلَاغَةِ مِنْ

نَهْجٍ نَجَا مِنْ مَهَاوِي الْجَهْلِ سَالِكُهُ

اے نہج البلاغہ! تجھ پر اللہ کی رحمت و برکت ہو، یہ وہ راہ ہے جس کا سالک جہالت کی گہری کھائیوں سے نجات پا لیتا ہے۔

أَوْ دَعْتَ زُهْرَ نُجُومٍ ضَلَّ مُنْكِرُهَا

وَجَارَ عَنْ جُدَدٍ عَنَّا مَسَالِكُهُ

تُو نے روشن ستاروں کی مانند انوار اپنے اندر سمو رکھے ہیں، لیکن تیرا منکر گمراہ ہو گیا، اور وہ سیدھی شاہراہوں سے بھٹک کر ٹیڑھی راہوں پر چل نکلا۔

لَأَنْتَ دُرٌّ وَيَا لِلَّهِ نَاظِمُهُ

وَأَنْتَ نَضْرٌ وَيَا لِلَّهِ سَابِكُهُ

یقینا تُو ایک قیمتی موتی ہے اور اللہ ہی تیرا مرتب کرنے والا ہے، اور تُو ایک شاداب و سرسبز باغ ہے اور اللہ ہی تیرا پیدا کرنے اور بُننے والا ہے۔

19: شاعر کا نام معلوم نھیں ہے

نَهْجُ الْبَلَاغَةِ فِيهِ كُلُّ فَضِيلَةٍ

وَإِلَيْهِ مَجْمُوعُ الْكِتَابِ يَئُولُ

نہج البلاغہ میں ہر فضیلت جمع ہے، اور تمام کتابیں بالآخر اسی کی طرف رجوع کرتی ہیں۔

فِيهِ جَوَامِعُ حِكْمَةٍ وَفَصَاحَةٍ

عَنْهَا عُيُونُ ذَوِي الْغَبَاوَةِ تَعُولُ

اس میں جامع حکمتیں اور فصاحتیں ہیں، جن سے غافلوں کی آنکھیں محروم اور اندھی ہیں۔

حَوْلَ مَعنَاهُ مِنْ عَيْنِ الْيَقِينِ

وَلَفْظُهُ مِنْ نَوْعِ مِشْكَاةِ الْكِتَابِ يَقُولُ

اس کے معانی ’’عین الیقین‘‘ کے گرد گھومتے ہیں، اور اس کے الفاظ گویا کتابِ خدا کی مشکاۃ سے نکل کر بولتے ہیں۔

كِتَابٌ كَانَ اللهُ رَصَّعَ لَفْظَهُ

بِجَوْهَرِ آيَاتِ الْكِتَابِ الْمُفَصَّلِ

یہ ایسی کتاب ہے جس کے الفاظ کو اللہ نے آراستہ کیا ہے، قرآنِ مفصل کی آیات کے جواہرات سے۔

حَوَى حِكَمًا كَالْوَحْيِ يَنْطِقُ مُعْجِزًا

وَلَا فَرْقَ إِلَّا أَنَّهُ غَيْرُ مُنَزَّلِ

اس میں ایسی حکمتیں ہیں جو وحی کی مانند معجزانہ بولتی ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ یہ نازل شدہ وحی نہیں ہے۔

نَهْجُ الْبَلَاغَةِ نَهْجُ الْعِلْمِ وَالْعَمَلِ

فَاسْلُكْهُ يَا صَاحِ تَبْلُغْ غَايَةَ الْأَمَلِ

نہج البلاغہ علم اور عمل کا راستہ ہے، پس اے دوست! اس پر چلو تاکہ تم اعلیٰ امیدوں کی منزل کو پا سکو۔

كَمْ فِيهِ مِنْ حِكَمٍ بِالْحَقِّ مُحْكَمَةٍ

تُحْيِي الْقُلُوبَ وَمِنْ حِكَمٍ وَمِنْ مَثَلِ

اس میں کتنی ہی ایسی مضبوط حکمتیں ہیں جو حق پر قائم ہیں، جو دلوں کو زندہ کرتی ہیں اور مثالوں سے لبریز ہیں۔

أَلْفَاظُهُ دُرَرٌ أَغْنَتْ بِحُلْيَتِهَا

أَهْلَ الْفَضَائِلِ مِنْ حُلِيٍّ وَمِنْ حُلَلِ

اس کے الفاظ موتی ہیں جن کی زینت نے اہلِ فضیلت کو غنا بخشا، انہیں زیورات اور لباسِ فصاحت سے بے نیاز کر دیا۔

وَمِنْ مَعَانِيهِ أَنْوَارُ الْهُدَى سَطَعَتْ

فَانْجَابَ عَنْهَا ظَلَامُ الزَّيْغِ وَالزَّلَلِ

اور اس کے معانی سے ہدایت کے انوار چمک اٹھے، جن کے ذریعے گمراہی اور لغزش کے اندھیرے چھٹ گئے۔

وَكَيْفَ لَا وَهُوَ نَهْجٌ طَابَ مَنْهَجُهُ

هُدِيَ إِلَيْهِ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عَلِي

اور کیوں نہ ہو، حالانکہ یہ وہ نہج ہے جس کا راستہ پاکیزہ ہے، اور جس کی طرف ہدایت دینے والے امیرالمؤمنین علیؑ ہیں۔

20: شیخ ڈاکٹر احمد الوائلی، تاریخِ وفات: 1424ھجری

يَا يَرَاعًا يُنَمْنِمُ الْوَرْدَ مِنْ نَهْجٍ

عَلِيٍّ وَالنَّهْجُ سِفْرٌ جَلِيلُ

اے قلم! جو علیؑ کے نہج سے گلاب تراشتا ہے، یہ نہج ایک عظیم الشان کتاب ہے۔

دَلَّلَ النَّبْرُ أَنَّهُ لِعَلِيٍّ

رَبُّ قَوْلٍ عَلَيْهِ مِنْهُ دَلِيلُ

فصیح الفصیح اس بات کی دلیل ہے کہ یہ علیؑ کا کلام ہے، کیونکہ ہر جملہ خود علیؑ کی طرف اسناد کی شہادت دیتا ہے۔

إِنَّهُ فِي الْبَيَانِ شَمْسٌ

فَلَا الْفَانُوسُ مِنْ سِنْخِهِ وَلَا الْقِنْدِيلُ

یہ بیان میں سورج کی مانند ہے، جس کا نہ کوئی فانوس ہم پلہ ہو سکتا ہے نہ چراغ۔

نَظْمُ الرَّائِعَاتِ مَبْنًى وَمَعْنًى

فَإِذَا الْأَحْرُفُ الشَّذَى وَالْخَمِيلُ

اس کی عبارت اور معانی دونوں لاجواب ہیں، یوں لگتا ہے جیسے حروف خوشبو اور بہار میں ڈھلے ہوں۔

كُلُّ فَصْلٍ أَبُو تُرَابٍ بِهِ يَبْدُو

فَتَهْتَزُّ بِالْهَدِيرِ الْفُصُولُ

ہر فصل میں ابو ترابؑ کی شخصیت نمایاں ہو جاتی ہے، اور اس کے الفاظ کی گرج سے دل و جان لرز اٹھتے ہیں۔

غَيْرَ أَنَّ النَّفْسَ الْمَرِيضَةَ تَهْوَى

أَنْ يُغَطِّيَ الْحَقَائِقَ التَّضْلِيلُ

لیکن بیمار دل یہ چاہتے ہیں کہ حقائق کو گمراہ کن تاویلات سے چھپا دیں۔

زَعَمُوهُ نَسْجَ الرَّضِيِّ وَمَهْلًا

أَيْنَ مِنْ هَادِرِ الْفُحُولِ الْفَصِيلُ

انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ سید رضیؒ کی تصنیف ہے! ذرا ٹھہرو— کب بچہ شیر کی گرج کی مانند ہو سکتا ہے؟

لَا تُعِرْ قَوْلَهُمْ فَمَا هُوَ شَيْءٌ

كَيُصَفِّيَهُ الْجَرْحُ وَالتَّعْدِيلُ

ان کی باتوں کی پروا نہ کرو، کیونکہ یہ ایسی نہیں کہ جرح و تعدیل کے معیار پر بھی پرکھی جا سکیں۔

إِنَّهُ الْعَجْزُ وَالْقُصُورُ وَمَاذَا

غَيْرَ أَنْ يَحْسِدَ الْمَتِينُ الْهَزِيلُ

یہ سب ان کی عاجزی اور کمزوری ہے، ورنہ کمزور کا مضبوط پر حسد کے سوا اور کیا ہے؟

قَدْ أَفَاضَتْ «مَصَادِرُ النَّهْجِ»

فِيمَا رَدَّ فِيهِ مُعَانِدٌ وَجَهُولُ

نہج البلاغہ کے مصادر نے وضاحت سے ذکر کیا ہے، ان باتوں کو رد کرنے میں جو معاند اور جاہل کہہ بیٹھے۔

وَدَرَى الْبَاحِثُونَ فِي أَنَّ دَعْوَى

عَزْوِهِ لِلرَّضِيِّ قَوْلٌ عَلِيلُ

محققین نے سمجھ لیا کہ یہ نسبت دینا کہ یہ سید رضیؒ کا کلام ہے، ایک کمزور اور باطل دعویٰ ہے۔

وَأَبَى الْحَاقِدُونَ أَنْ يَنْظُرُوا

إِلَّا ازْوِرَارًا وَأَعْيُنُ الْحِقْدِ حَوْلُ

لیکن حاسدوں نے سچائی کو دیکھنے سے انکار کیا، اور صرف کجی و کینہ کی آنکھوں سے دیکھا۔

وَلَوْ «النَّهْجُ» نَهْجُ صَخْرِ بْنِ حَرْبٍ

فَعَلَى الْقَطْعِ إِنَّهُ مَقْبُولُ

اگر یہ نہج ابو سفیان کا ہوتا، تو وہ بغیر دلیل ہی قبول کر لیتے۔

لَكِنِ النَّهْجُ كَانَ نَهْجَ عَلِيٍّ

وَعَلِيٌّ عَلَى الدُّنْيَا ثَقِيلُ

لیکن حقیقت یہ ہے کہ نہج صرف علیؑ کی ہے، اور علیؑ کی ذات دنیا کے لیے بھاری ہے۔

21: عبد الباقی العمری، تاریخ وفات: 1204 ھجری

أَلَا إِنَّ هَذَا السِّفْرَ نَهْجُ بَلَاغَةٍ

لِمُنْتَهِجِ الْعِرْفَانِ مَسْلَكُهُ جَلِيُّ

خبردار! یہ کتاب "نہج البلاغہ” ہے، جو معرفت و عرفان کے طلبگار کے لیے بالکل واضح راستہ ہے۔

عَلَى قِمَمٍ مِنْ آلِ حَرْبٍ تَرَفَّعَتْ

كَجُلْمُودِ صَخْرٍ حَطَّهُ السَّيْلُ مِنْ عُلُ

یہ آلِ حرب (یعنی بنی امیہ و دشمنانِ علیؑ) کی چوٹیوں سے بلند ہے، جیسے ایک عظیم چٹان کو اوپر سے سیلاب نیچے گرا دے۔

22: شاعر کا نام معلوم نھیں ہے

نَهْجُ الْبَلَاغَةِ مَهْدِيُّ السَّالِكِينَ إِلَى

مَوَاطِنِ الْحَقِّ مِنْ قَوْلٍ وَمِنْ عَمَلِ

نہج البلاغہ سالکوں کو رہنمائی دینے والا ہے، جو اُنہیں قول و عمل دونوں میں حق کے مقامات تک پہنچاتا ہے۔

فَاسْلُكْهُ تُهْدَ إِلَى دَارِ السَّلَامِ غَدًا

وَتَحْظَ فِيهَا بِمَا تَرْجُوهُ مِنْ أَمَلِ

پس تم اس کے راستے پر چلو تاکہ کل تم دارالسلام (جنّت) کی طرف ہدایت پاؤ، اور وہاں وہ سب کچھ حاصل کرو جس کی تم امید رکھتے ہو۔

23: عبد الواحد النعمانی، تاریخ وفات: 433 ھجری

كَلَامٌ شِفَاءٌ لِلصُّدُورِ مُؤَيَّدًا

مِنَ الْوَحْيِ مُشْتَقٌّ وَلَيْسَ بِقُرْآنِ

یہ کلام سینوں کے لیے شفا ہے اور تائید یافتہ ہے، وحی سے ماخوذ ہے مگر قرآن نہیں ہے۔

وَلَكِنَّمَا فِيهِ لَهُ مِنْهُ جَامِعٌ

فَصَاحَتُهُ قَدْ أَعْجَزَتْ كُلَّ إِنْسَانِ

لیکن اس میں وہ سب کچھ موجود ہے جو قرآن سے ہم آہنگ ہے، اس کی فصاحت نے ہر انسان کو عاجز کر دیا ہے۔

24: شاعر کا نام معلوم نھیں ہے

كِتَابٌ حَوَى نَهْجَ الْبَلَاغَةِ لَفْظُهُ

عَلَيْهِ مِنَ النُّورِ الإِلَهِيِّ تِيجَانُ

یہ کتاب، جس میں نہج البلاغہ کا کلام ہے، اس کے الفاظ پر الٰہی نور کے تاج جگمگا رہے ہیں۔

مِنَ الْوَحْيِ مُشْتَقٌّ فَلَمْ يَأْتِ مِثْلُهُ

لِمَا فِيهِ مِنْ رُوحِ الْفَصَاحَةِ إِنْسَانُ

یہ وحی سے ماخوذ ہے، اس جیسا کوئی کلام نہیں آیا، کیونکہ اس میں ایسی روحِ فصاحت ہے کہ کوئی انسان اس کی برابری نہیں کر سکتا۔

25: شاعر کا نام معلوم نھیں ہے

نهجُ البلاغةِ في البريّةِ حُجّةٌ

وبه تصحُّ عقيدةُ الإيمانِ

نہج البلاغہ تمام مخلوق کے درمیان ایک حجّت/قطعی دلیل ہے، اور اسی کے ذریعے عقیدۂ ایمان درست اور برقرار رہتا ہے۔

لو لم يكن وحياً بليغاً لم يكن

معناه مشتقّاً من القرآنِ

اگر یہ بلیغ وحی (کے مانند) نہ ہوتا تو اس کے معانی قرآن سے ماخوذ نہ ہوتے۔

هو خامسُ الكتبِ التي جاءتْ على

متفرّقِ الأنباءِ والأديانِ

یہ اُن (جلیل) کتابوں کے درمیان پانچواں مانند ہے جو مختلف انبیاء اور ادیان کے سلسلے میں آتی رہیں۔

في حكمةِ التوراةِ والإنجيلِ في

فضلِ الزبورِ وعِزّةِ الفُرقانِ

اس میں تورات و انجیل کی حکمت، زبور کی فضیلت اور فرقانِ مجید (قرآن) کی شوکت و عظمت جلوہ گر ہے۔

إنذارُهُ لِمَنِ اعتدى وبيانُهُ

لِمَنِ اهتدى بالنصِّ والبرهانِ

اس کی تنبیہیں سرکشوں کے لیے ہیں، اور اس کی توضیحات ہدایت پانے والوں کے لیے—صریح نص اور روشن برہان کے ساتھ۔

هو مُعجِزٌ لم يَأْتِ خَلقٌ مِثلَهُ

وكفى بهِ التلويحُ والتبيانُ

یہ ایک معجزہ ہے؛ کوئی مخلوق اس جیسا نہیں لا سکی، اور اس کے اشارے اور کھلا بیان ہی اس کے حق ہونے کو کافی ہیں۔

26: عبد المسیح الانطاکی ، تاریخ وفات: 1341 ھجری

إِنَّ الْفَصَاحَةَ مَا دَانَتْ لِذِي لِسْنٍ

مِنَ الْبَرِيَّةِ عَرَبِيِّهَا وَعَجَمِيهَا

یقیناً فصاحت کبھی کسی زبان داں کے آگے نہیں جھکی، چاہے وہ عرب ہو یا عجم۔

كَمَا انْثَنَتْ بِبَهَاهَا وَهِيَ خَاضِعَةٌ

لِلْمُرْتَضَى اللِّسْنِ الْقَوَّالِ رَاعِيهَا

لیکن اپنی تمام زیبائی کے ساتھ فصاحت جھک گئی اور سر تسلیم خم کیا، مرتضیٰؑ کے بلیغ و خطیب کلام کے آگے، جو اس کا حقیقی راعی ہے۔

كَأَنَّهَا خُلِقَتْ خَلْقًا لَهُ وَكَأَنَّهُ

مِنَ الْعَدَمِ الْمَجْهُولِ مُبْدِيهَا

یوں لگتا ہے کہ فصاحت گویا انہی کے لیے پیدا کی گئی، اور وہی ہیں جنہوں نے اسے عدم سے وجود بخشا۔

قَدْ بَذَّ كُلَّ فَصِيحٍ قَبْلَهُ عُرِفَتْ

آثَارُ آدَابِهِ وَالنَّاسُ تَرْوِيهَا

انہوں نے اپنے سے پہلے کے تمام فصحاء کو پیچھے چھوڑ دیا، ان کی بلاغت کی روایات آج بھی لوگوں کی زبانوں پر ہیں۔

وَلَمْ يَدَعْ بَعْدَهُ سُبُلًا لِمُطْلِبٍ

سَبْقًا بِمِضْمَارِهَا إِنْ رَامَ يَمْشِيهَا

اور ان کے بعد کسی طالبِ فصاحت کے لیے کوئی راہ باقی نہ رہی، کہ اگر کوئی چلنا بھی چاہے تو اس میدان میں سبقت پہلے ہی وہ لے چکے ہیں۔

لَمْ يَبْقَ ذِكْرًا لِقُسٍّ وَهُوَ أَفْصَحُ مِلْسَانٍ

وَلَا خُطَبًا قَدْ كَانَ يُلْقِيهَا

انہوں نے قُسّ بن ساعدہ جیسے مشہور خطیب کا ذکر تک مٹا دیا، حالانکہ وہ اپنی فصاحت کی وجہ سے معروف تھا اور خطبوں کا ذکر تک مٹا دیا جو وہ بیان کرتا ۔

نَعَمْ فَصَاحَتُهُ مَا مَنْ يُقَارِبُهُ

فِيهَا وَحَسْبِي عَلِيٌّ كَانَ يُنْشِيهَا

ہاں! ان کی فصاحت ایسی ہے کہ کوئی اس کا ہمسر نہیں، اور میرے لیے بس یہی کافی ہے کہ علیؑ ہی اس کے خالق ہیں۔

وَإِنَّهُ دُونَ رَيْبٍ سَيِّدُ الْفُصَحَاءِ

النَّاثِرِينَ مِنَ الْأَقْوَالِ دُرِّيَّهَا

بے شک وہ بلا شبہ فصحا کے سردار ہیں، جن کے اقوال کے موتی آج بھی بکھرے ہوئے ہیں

وَإِنَّهَا فَوْقَ أَقْوَالِ الْبَرِيَّةِ طُرًّا

إِنَّمَا دُونَ مَا قَدْ قَالَ بَارِيهَا

یہ (نہج البلاغہ) تمام مخلوق کے اقوال سے بلند ہے، ہاں مگر خدا کے کلام سے کمتر ہے جو اس کا خالق ہے۔

وَهِيَ الَّتِي تَسْحَرُ الْأَلْبَابَ مَا تُلِيَتْ

سِحْرًا حَلَالًا يُغْشِي نَفْسَ تَالِيهَا

یہ ایسا کلام ہے کہ جب تلاوت کی جاتی ہے تو دلوں کو سحر کر لیتا ہے، لیکن وہ سحر حلال ہے جو پڑھنے والے کی روح کو گھیر لیتا ہے۔

هِيَ الشُّمُولُ بِالْبَابِ الْوَرَى لَعِبَتْ

لَعِبَ الشُّمُولِ بِلَا إِثْمٍ لِسَاقِيهَا

یہ لوگوں کے دروازے پر پیش کی جانے والی شراب کی مانند ہے، جو شراب کی طرح سرور بخش ہے لیکن ساقی کے لیے بلا گناہ۔

عُقُودُ دُرٍّ لِجِيدِ الشَّرْعِ قَدْ نُظِمَتْ

فَهَاكَهُ قَدْ تَحَلَّى مِنْ لَآلِيهَا

یہ شرع کی گردن کے لیے موتیوں کے ہار کی مانند ہے، جو اپنے جواہرات سے مزین و مزین کرنے والی ہے۔

فِي حُسْنِهَا جُلِّيَتْ مِثْلَ الْعَرَائِسِ فِي

حُلِيِّهَا تُبْهِرُ الدُّنْيَا مَجَالِيهَا

یہ حسن و جمال میں دلہنوں کی مانند ہے، جو اپنی زینتوں سے دنیا کو خیرہ کر دیتی ہیں۔

آضَتْ تِلَاوَتُهَا وَاللَّهِ مُطْرِبَةَ الْأَسْمَاعِ

مَا نَغَمَاتُ الطَّيْرِ تُحْكِيهَا

اس کی تلاوت، خدا کی قسم، کانوں کو اس قدر سرور بخش ہے، جیسے پرندوں کے نغمے بھی اس کی نقل نہ کر سکیں۔

فَمَنْ تَلَاهَا تَلَاهَى عَنْ فَرَائِضِهِ

إِنْسَابَهَا نَاسِيَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا

جو اسے پڑھتا ہے وہ اپنی ذمہ داریوں سے محو ہو جاتا ہے، اس کے بہاؤ میں دنیا اور اس کی لذتوں کو بھول جاتا ہے۔

ضَمَّتْ مَوَاعِظَهُا الْغُرَّا وَحِكْمَتَهُ

الْكُبْرَى وَأَخْلَاقَهُ الزَّهْرَا فَحَاوِيهَا

اس میں روشن نصیحتیں، عظیم حکمتیں، اور درخشاں اخلاق سب جمع ہیں۔

وَجَاءَ فِيهَا بِأَحْكَامٍ تُوَضِّحُ

آيَاتِ الْكِتَابِ عَلَى مَا شَاءَ مُوحِيهَا

اس میں وہ احکام بھی ہیں جو قرآن کی آیات کی وضاحت کرتے ہیں، جیسا کہ خدا نے چاہا اور وحی نے بیان کیا۔

وَكَانَ يَكْسُو مَعَانِيهِ السَّنِيَّةَ

أَلْفَاظًا تُلَائِقُهَا أَعْظَمَ بُكَاسِيهَا

وہ اپنے بلند معانی کو ایسے الفاظ میں سجاتے تھے، جو ان کے شایانِ شان اور عظمت بخشنے والے ہوتے تھے۔

كَانَ يُرْسِلُهَا عَفْوًا بِلَا تَعَبٍ

عَلَى الْمَنَابِرِ بَيْنَ النَّاسِ يُشْجِيهَا

وہ (علیؑ) یہ کلمات فی البدیہہ بغیر کسی تکلّف کے جاری کرتے تھے، منبروں پر لوگوں کے سامنے اور ان کے دلوں کو جھنجھوڑتے تھے۔

كَذَا رَسَائِلُهُ الْغَرَّاءُ كَانَ بِلَا

تَكَلُّفٍ بِدَرَارِيهِ يُوشِيهَا

اسی طرح ان کے عظیم خطوط بھی بلا تکلف تھے، جو ستاروں کی طرح روشن اور مزین تھے۔

ظَلَّتْ وَحَقِّكَ كَنْزًا لَا نَفَادَ لَهُ

مِنَ الْفَصَاحَةِ لِلْأَعْرَابِ يُغْنِيهَا

قسم ہے تیری! یہ ایک ایسا خزانہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگا، اور عربوں کے لیے فصاحت کا ایسا سرمایہ ہے جو انہیں کافی ہے۔

مِنْهَا تَعَلَّمَتِ النَّاسُ الْفَصَاحَةَ

لَكِنْ أَعْجَزَتْ كُلَّ مَنْ يَبْغِي تَحَدِّيْهَا

لوگوں نے اسی سے فصاحت سیکھی، لیکن یہ ہر اُس شخص کو عاجز کر گئی جو اس کا مقابلہ کرنا چاہتا۔

بِذَلِكَ اعْتَرَفَتْ أَهْلُ الصِّنَاعَةِ

بِالْإِجْمَاعِ مُصَدِّرَةً فِيهِ فَتَاوِيهَا

اسی بات کا اعتراف اہلِ فن نے بھی کیا، اور اتفاقِ رائے سے اس بارے میں اپنے فتوے صادر کیے۔

وَعُمْرُكَ اللَّهُ هَلْ أَجْلَى وَأَفْصَحُ مِنْ

أَقْوَالِ حَيْدَرَةَ أَوْ مِنْ مَعَانِيهَا

خدا کی قسم! کیا کبھی حیدرؑ کے اقوال سے زیادہ واضح اور فصیح کوئی چیز دیکھی گئی ہے؟ یا ان کے معانی کے برابر کچھ پایا گیا ہے؟

فِي كُلِّ مَا نُظِمَتْ أَوْ كُلِّ مَا نُثِرَتْ

أَهْلُ الذَّكَانَةِ فِي شَتَّى أَمَالِيهَا

خواہ وہ منظوم ہو یا منثور، اہلِ دانش نے ہمیشہ ان کے مختلف پہلوؤں سے فائدہ اٹھایا ہے۔

لَوْلَا التُّقَى قُلْتُ: آيَاتٌ مُنَسَّقَةٌ

فِيهَا الْهِدَايَةُ أَوْ تَجْرِي مَجَارِيهَا

اگر تقویٰ رکاوٹ نہ ہوتا تو میں کہتا: یہ گویا منظم آیات ہیں جن میں ہدایت بہتی ہے۔

وَذِي كِتَابَتُهُ "نَهْجُ الْبَلَاغَةِ” فِي سُطُورِهَا

وَبِهِ هُدِيَ لِقَارِبِهَا

اور یہی ہے وہ تحریر جو ’’نہج البلاغہ‘‘ میں مدوّن ہوئی، جس کے ذریعے اس کے قریب آنے والے ہدایت پاتے ہیں۔

وَحَسْبُنَا مَا رَأَيْنَا لِلصَّحَابَةِ آثَارًا

تُحَاكِي الَّذِي أَبْقَاهُ عَالِيهَا

اور ہمارے لیے کافی ہے جو ہم نے صحابہ کے آثار میں دیکھا، جو اس عظیم ہستی (علیؑ) کے چھوڑے ہوئے کلام کی مانند ہیں۔

وَهُمْ لَقَدْ وَرَدُوا مَعَهُ مَنَاهِلَ دِينِ اللَّهِ

وَالْمُصْطَفَى قَدْ كَانَ مُجْرِيهَا

وہ (صحابہ) دینِ خدا کے ان سرچشموں پر انہی کے ساتھ وارد ہوئے، اور خود مصطفیٰؐ ان کا جاری کرنے والے تھے۔

فَإِنْ تَقُلْ غَيْرَ هَيَّابٍ فَصَاحَتُهُ

لِلنَّاسِ مُعْجِزَةٌ لَمْ تُلْقَ تَسْفِيهَا

پس اگر کوئی ڈرے بغیر کہے تو کہہ سکتا ہے: ان کی فصاحت انسانوں کے لیے ایک معجزہ ہے، جسے کوئی رد نہیں کر سکا۔

وَذَاتَ يَوْمٍ أَتَى مَثْوَى مُعَاوِيَةَ

لِجِدِّيَّةٍ مَحْفَلٍ قَدْ كَانَ يَبْغِيهَا

ایک دن ایک شخص معاویہ کے پاس آیا، ایک ہجوم میں جسے وہ بڑھاوا دینا چاہتا تھا۔

فَقَالَ: مِنْ عِنْدِ أَعْيَى النَّاسِ جِئْتُكَ يَا

رَبَّ الْفَصَاحَةِ أَنْشِدْنِي مَثَانِيهَا

اس نے کہا: میں تمہارے پاس اس شخص کے پاس سے آیا ہوں جو سب سے زیادہ عاجز ہے! اے فصاحت کے آقا! مجھے اس کے کلام کی مانند کچھ سنا دو۔

فَقَالَ: وَيْحَكَ تَرْمِي بِالْفَهَاهَةِ

وَالْإِعْيَاءِ حَيْدَرَةَ كَذِبًا وَتَمْوِيهَا

معاویہ نے کہا: افسوس تم پر! کیا تم حیدرؑ پر کم عقلی اور عاجزی کا الزام لگاتے ہو؟یہ تو جھوٹ اور فریب ہے۔

وَلَمْ يَسُنَّ قَوَانِينَ الْفَصَاحَةِ إِلَّاهُ

لِأُمَّتِنَا حَتَّى قُرَيْشِيَّهَا

اس امت کے لیے (حتیٰ کہ قریش کے لیے بھی) فصاحت کے قوانین صرف انہی (علیؑ) نے مرتب کیے۔

وَتِلْكَ قَوْلُهُ حَقٌّ مِنْهُ قَدْ بَدَرَتْ

عَفْوًا بِمَجْلِسِهِ مَا اسْطَاعَ يَزْوِيهَا

ان کے وہ اقوال بالکل حق ہیں جو ان کی مجلس سے فی البدیہہ صادر ہوئے، اور کوئی انہیں چھپا نہ سکا.

وَالْفَضْلُ لِلْمَرْءِ مَا أَعْدَاؤُهُ شَهِدَتْ

لَهُ بِهِ وَرَوَتْهُ فِي نَوَادِيهَا

اور کسی شخص کے لیے سب سے بڑی فضیلت وہ ہے، جسے اس کے دشمن بھی مانیں اور اپنی محفلوں میں نقل کریں۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button