شمع زندگی

257۔ آراء کا احترام

مَنِ اسْتَقْبَلَ وُجُوْهَ الْاٰرَاءِ عَرَفَ مَوَاقِعَ الْخَطَإِ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۱۷۳)
جو شخص مختلف آراء کا سامنا کرتا ہے وہ خطاؤں کے مقامات کو پہچان لیتا ہے۔

انسان کی زندگی میں سوچ بچار کے بعد مثبت و منفی پہلوؤں پرغور کر کے کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ اہم ہوتا ہے۔ زندگی کی کامیابی کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اپنی رائے کے ساتھ دوسروں کی آراء کو بھی شامل کیا جائے۔ غور و فکر کے بعد رائے قائم کرنا اور دوسروں کی آراء کو اپنی رائے کے ساتھ شامل کرنا ہی عقل مندی کی نشانی ہے۔ امیرالمومنینؑ نے بھی اس شخص کی مذمت کی ہے جو اپنی رائے ہی کو سب کچھ سمجھتا ہے اور فرمایا کہ وہ ہلاک ہو جاتا ہے۔ البتہ رائے اس اظہار نظر کو کہا جاتا ہے جو اس موضوع کے ماہر سے ہو اور کسی فن کا ماہر، کسی علمی بنیاد پر ہی اپنی رائے قائم کرے گا، عام آدمی کی بات رائے شمار نہیں ہوگی۔

اگر ایک موضوع پر چند صاحب نظر مل کر اپنی اپنی آراء دیتے ہیں اور پھر انہیں جمع کیا جاتا ہے اور ایک بہتر نتیجہ اخذ کر کے قدم اٹھایا جاتا ہے تو غلطی و خطا کا امکان کم ہو جاتا ہے۔ عقلمند آدمی گزشتہ افراد کے اقوال اور موجودہ ماہرین کی آراء کو پڑھتا اور سنتا ہے، خود غور کرتا ہے اور آگے بڑھتا ہے تو یوں کامیابیوں کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ طب میں جب کوئی بڑا آپریشن کرتے ہیں تو پہلے ماہرین مل بیٹھ کر اس مرض کے بارے میں اپنی آراء دیتے ہیں۔ فوج کہیں اقدام کرتی ہے تو یہی عمل انجام دیا جاتا ہے بلکہ آج کل تو حکومتوں اور بڑے بڑے اداروں میں ماہرین کے گروپ معین ہوتے ہیں جنھیں ’’تھنک ٹینک‘‘ کہا جاتا ہے جو فیصلے کرتے ہیں۔ آج اجتماعی رائے کو جو اہمیت دی جارہی ہے امیرالمومنینؑ چودہ سو سال پہلے اسے اجاگر فرما رہے ہیں۔ اس فرمان پر عمل کر کے انسان اپنی ذاتی زندگی اور اجتماعی زندگی میں فائدہ اٹھا سکتا ہے بلکہ حکومتیں بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button