
منظوم ترجمہ: شاعر نہج البلاغہ مولانا سلمان عابدیؔ
دنیا نے پیٹھ پھیر کے اپنی تباہی کا
اعلان کردیا ہے خود اپنی جدائی کا
اور آخرت نے سب کو خبردار کردیا
آمد کا اپنی لوگوں پہ اظہار کردیا
آمادگی کا آج ہے دن کل ہے دوڑ کا
جو دوڑے گا ملے گا اسے خلد کا صلہ
اور بعض لوگ جسکی طرف خود ہی جائیں گے
دوزخ کی وہ جگہ ہے جہاں خود کو پائیں گے
کیا اب بھی کوئی ایسا نہیں جو گناہوں سے
مرنے سے پہلے توبہ جو کرلے خطاؤں سے
سختی کے دن سے پہلے جو خود کو سنوار لے
جو نیکیوں سے نفس کو اپنے نکھار لے
دور امید و بیم میں تم لوگ آج ہو
جسکے عقب میں موت لگی ہے یہ جان لو
امید کے دنوں میں جو مرنے سے قبل ہی
کرلے عمل تو فایدہ بھی پائے گا وہی
اور موت اس کو کوئی ضرر دے نہ پائے گی
( بلکہ ہر اک خسارے سے اس کو چائے گی)
دور امید و بیم میں مرنے سے قبل جو
کوتاہیاں کرے گا تو یہ بات جان لو
وہ منزل عمل میں خسارہ اٹھائے گا
اور موت کے ضرر سے بھی وہ بچ نہ پائے گا
راحت کے تم دنوں میں عمل ویسا ہی کرو
ایام خوف و غم میں عمل جیسا کرتے ہو
مطلوب میں نے خلد سا دیکھا کوئی نہیں
سوئے پڑے ہیں جس کے طلبگار بالیقیں
دوزخ ہی ایسی چیز نظر آتی ہے سدا
غفلت میں ، جس سے بھاگنے والے ہیں مبتلا
حق فایدہ و سود نہ پہنچائے گا جسے
باطل ضرور دے گا ضرر ایک دن اسے
رستہ پہ لا سکے نہ ہدایت جسے کبھی
گمراہی ایک روز اسے مار ڈالے گی
حکم سفر تو تم کو کبھی کا ہے مل چکا
زاد سفر کا بھی تمہیں معلوم ہے پتہ
حق میں تمہارے اور تمہی لوگوں کے لئے
سب سے زیادہ خوف ہے دو چیزوں کا مجھے
اک خواہشات نفس کی ہر وقت پیروی
اک آرزو کہ جس کی نہیں انتہا کوئی
اتنا ہی زاد راہ فقط اس جہاں سے لو
کل جس سے اپنے آپ کو تم سب بچا سکو
ختم شد





