مقالات

حضرت علیؑ کے مددگار اور ساتھی 

        مقدمہ

    وہ موت کا سماں اور ظلم و جور سے پر راتیں جو غمزدوں کے حزن و ملال میں اضافہ ہی کر رہی تھیں لیکن افسوس انھیں کوئی ڈھارس دینے والا نہ تھا ، جب کہ دنیا کا دستور ہے کہ لوگ صاحب عزا اورغمزدہ کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرتے ہیں ،دلاسہ دیتے ہیں ، میت کو سپرد لحد کرنے میں مدد کرتے ہیں لیکن یہاں تو جس رسول نے بے شمار برائیوں میں گرفتار عربوں کو مصباح علم و اخلاق سے مزین کیا ہو اسی کے جنازے کو چھوڑ کر دنیا پرستی کو معیار زندگی بناکر سقیفہ بنی ساعدہ کا مشہور و مکروہ ، منفور واقعہ رونما کرکے ظالموں نے یہ بات ضرور واضح کردی کہ دنیا پرستی کے نشہ میں وہ اتنے اندھے ہو چکے ہیں کہ اب انھیں نبی کے جنازے اور اس کے احترام کا کوئی پاس و لحاظ نہیں ہے۔ تاجدار رسالت ، سید بطحی ، سید الرسل ، مونس و غمخوار امت ۔۔۔میں تو کہتا ہوں کہ جانور بھی اپنے آقا کا احترام کرنا جانتے ہیں لیکن انھیں انسان نہیں بلکہ حیوان بھی کیسے کہا جائے جنہوں نے اپنے نبی کی رحمت و الفت و نصرت کا جواب اپنی بے رخی ظلم و ستم سے دیا ہو آپ نے اندازہ لگا ہی لیا ہوا گا کہ جسے نبی اور اسلام کا خیال نہ رہا ہو اس نے  سقیفہ میں کیا کیا تماشے نہ دکھائے ہوں گے ۔حالانکہ اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خلافت کے حقیقی وارث علی ابن ابی طالب علیہ السلام جو نص قرآنی ، حدیث نبوی کی روشنی میںخلافت کے وارث ناب تھے اور آپ کو خدا اور رسول کی حمایت بھی حاصل تھی انھیں اپنی راہ سے ہٹانے کے لئے ان لوگوں نے کس طرح کے ظلم و ستم کا سہارا لیا ہوگا ۔ اوراق تاریخ گواہ ہیں کہ سقیفہ کے تماشے کے بعد خلیفۂ اول کی بیعت سے انکار کی صورت میں بعض افراد تازیانوں کے کس طرح شکار ہوئے ، ایسی صورتحال میں جب اکثر افراد سقیفہ کی رنگینیوں میں مست تھے توکچھ ایسے افراد بھی موجود تھے جو جنازۂ نبی کے دفن و کفن کا انتظام بھی کرتے جاتے تھے اور آنسوؤں کے پرنالوں سے اپنے نبی کو رخصت بھی کر رہے تھے ۔ جی ،ہاں ! ساری مصیبتیں تاجدار امامت ، سید اوصیاء حضرت علی ؑکی طرف ہجوم لا رہی تھیں ،آپ ؑ کو نبی کے جانے کا غم ، سقیفہ کا تماشا ، خلافت کے غصب اور فدک کے ہڑپ لئے جانے کا دردتھا ، حالانکہ علی ؑکا کوئی نقصان نہ تھا بلکہ امت رسول کی راہ ہدایت کے متزلزل ہونے کا سارا غم تھا جس کی آڑ میں ظالموں نے آپ ؑکو طرح طرح سے اذیت و تکالیف سے دوچار کیا ، کبھی زہراء مرضیہ کو دربار میں بلاکر تکلیف دی تو کبھی آپ کی بے حرمتی کرکے دکھ پہونچایا تو کبھی آپ کے ساتھیوں پر ظلم و ستم کر کے اذیت پہونچائی ۔

         ہم نے یہ ساری باتیں حالات کو روشن و واضح کرنے کے لئے بیان کی ہیں جس سے حضرت علی ؑپر مصائب و آلام کی ابتداء سمجھ میں آجائے لیکن اب ہم اپنے موضوع کی طرف آپ کو لئے چل رہے ہیں تاکہ مولائے کائنات کی حیات طیبہ میں مشہور و معروف ساتھیوں کے اسماء اور ان کی حالات زندگی کو سینۂ قرطاس کے حوالہ کیا جاسکے ۔

حضرت علی ؑکے مددگارا ور ساتھی

        امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب کے فیضان علم اور مصباح حلم سے سیراب ہونے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن ہم مشہور اور چنندہ اصحاب اور جانبازوں کے اسماء نیزان کے حالات زندگی کو بیان کریں گے ۔

       مالک اشتر

        مالک اشتر ، جناب امیر کے باوفا اور مشہور ترین فدایوں میں سے ہیں جن کا تعلق قبیلۂ مذحج کے طائفۂ نخ سے تھا ۔آپ نے حضرت امیر المومنین ؑ کے ہاتھوں اسلام قبول کیا اور اس کے بعد جناب امیر کے گرویدہ ہوگئے ۔

        مالک اشتر ،شجاعت میں بے مثال ، علم و فضل اور بزرگواری میں یکتائے زمانہ تھے اور آپ ہی نے رسول اسلام کے جلیل القدر صحانی جناب ابوذر غفاری کے کفن و دفن کا انتظام کیاتھا۔ عثمان کی خلافت کے زمانے میں یمن کے دوسرے مجاہدوں کی طرح کوفہ میں زندگی بسر کرتے تھے ، آپ بلند قد، چوڑاسینہ ، خطیب بے مثال اور دلاور بے نظیر تھے ،اہل کوفہ میں آپ بلند مرتبہ اور صاحب رای تھے ۔

        جنگ جمل میں مالک اشتر امیر المومنین علی ابن ابی طالب کے لشکر میں داہنی سمت کے کمانڈر تھے ۔ حضرت علی ؑ نے جنگ کے خاتمہ کے بعد کوفہ کو اپنی خلافت کا مرکز بنا لیا اور اپنے کمانڈروں اور گورنروں کوجب تعیین کیا تو جناب مالک اشتر کو دجلہ ، فرات اور اس کے اطراف کی آبادی کے حصہ کا گورنر بنادیا ۔

        حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب نے ۳۷۔ھ؁۔ق میں جنگ صفین کے لئے مالک کو اپنے پاس بلا لیا ، جس میں جناب امیر ؑکے شیروں کے حملوں کی تاب نہ لاکر دشمنوں نے قرآن نیزوں پر بلند کرکے امان کی بھیک مانگنا شروع کردیا۔

        جناب امیر المومنین نے متعدد مقامات پر مالک اشتر کی تعریفیں کیں ہیں آپ فرماتے ہیں کہ مالک بردبار ، مقرر ، شاعر تھے جس نے اپنی نرمی کو سختیوں سے مدغم کردیا تھا جہاں سختیوں کی ضرورت ہوتی ہے سختی کرتے تھے اور جہاں نرمی کی ضرورت ہوتی ہے نرمی سے پیش آتے تھے۔(ابن ابی الحدید ، شرح نہج البلاغہ ؛ج؍۱۵ص۱۰۲)

         مالک اشتر کے سلسلہ میںابن ابی الحدیدکہتا ہے :

        مالک ، ایک بہادر جنگواور شیعوں کی ان اہم شخصیتوں میں سے تھے جنہوں نے حضرت امیر المومنین ؑکی نصرت میں اپنا خون جگر بہایا ہے  مالک کی وفات کے بعد علی علیہ السلام نے فرمایا: ’’ اے میرے معبود !مالک پر رحمت نازل فرما کہ وہ میرے لئے ایسا تھا جس طرح میں پیغمبر اسلام کے لئے تھا‘‘۔(ابن ابی الحدید ، شرح نہج البلاغہ ؍ج۱ص۹۸۔۹۹)

        حضرت علی ؑنے مالک اشتر کو مصر بھیجنے کے وقت حکومت و گورنری کے لئے جامع اور کامل قوانین لکھ کر مالک کے حوالے کیاجسے سید رضی ؒ

نے نہج البلاغہ میں جمع کیا ہے ، حالانکہ یہ خط حضرت ؑکے عاملوں کے پاس بھیجے گئے طولانی خطوط میں سے ہے جس میں کسی بھی ملک کو بہتر ادارہ کرنے کے لئے جامع اور بہترین اسالیب و قوانین مرقوم ہیں ۔

        جناب مالک کی شہادت کے سلسلہ میں اختلاف ہے ، ایک قول ہے کہ معاویہ نے مالک کوزہر سے شہید کرنے کے لئے ’’دہقان العریش‘‘ نامی ایک شخص کو مامور کیا تھا اور اس نے مالک کو شہد میں زہر دے کر شہید کردیا ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ معاویہ نے عثمان یا عمر کے غلام کو اس بات کے لئے آمادہ کیا تھا کہ وہ خود کو اجنبی ظاہر کرکے مالک سے نزدیک ہوکر آپ کے کھانے کو زہر آلود کرکے کھلادے ، اس نے ایسا ہی کیا جس سے مالک کی شہادت واقع ہوئی ۔ اس کے علاوہ بھی دوسرے اقوال ہیں جن کی تفصیل سے چشم پوشی کی جارہی ہے ۔( ثقفی ، ابن ہلال ، الغارات ، ج۱ص۲۶۲و۲۶۳)

        جناب مالک اشتر کی شہادت ۳۸۔ھ؁ میں مصر پہونچنے سے پہلے واقع ہوئی ۔ جب یہ خبر جناب امیر علی ابن ابی طالب کو ملی تو آپ ؑبہت زیادہ رنجیدہ ہوئے اور فرمایا: ’’ اے خدا ، مالک پر رحمت نازل فرما!مالک کو کوئی نہیں جانتا کہ مالک کیا تھے ؟ ان کی وفات میرے لئے بہت سخت ہے ، اگر وہ پتھر تھا تو ایک سخت اور باوقار تھا اور اگر وہ پہاڑ تھا تو عظیم اور بے مثال تھا ، گویا اس کی موت نے مجھے دو نیم کردیا ہے ۔( شیخ طوسی ، اختیار معرفۃ الرجال (رجال کشی)ص۶۲)

        امیر المومنین ؑسے مالک کے بارے میں لوگوں نے سوال کیاتو آپ نے فرمایا: ’’ میں ایسے شخص کے بارے میں کیا کہوں جس کی حیات اہل شام کو شکست دے گئی اور موت اہل عراق کو کھوکھلا کرگئی‘‘۔

        عمار یاسر         

        عمار یاسر پیغمبر اسلام کے بزرگ صحابہ نیز خدا اوراس کے رسول پر سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں سے تھے ۔آپ کے ماں ، باپ اور بھائی ،اسلام کے سب سے پہلے شہیدوں میں سے ہیں ۔ آپ کی والدہ ، سمیہ تاریخ اسلام کی سب سے پہلی شہید عورت ہیں ، جناب عمار اپنی طولانی عمر کی وجہ سے پیغمبر اسلام کے بعد حضرت علی علیہ السلام کیمددگاروں  میں شمار ہوتے ہیں ۔ جناب عمار اہل بیت عصمت و طہارت کے ان باوفا افراد میں سے ہیں جنہوں نے اپنے ہر فعل میں خدا کی مرضی کو مقدم رکھا ، آپ شجاع ، باوقار اور صدر اسلام کے دلاوروں میں سے  تھے اور بعض جنگوں میںسردار لشکرکے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں ۔

        عمار یاسر جنگ بدر اور پیغمبر اسلام کی تمام جنگوں میں شریک تھے ، جنگ بدر میں اپنی بے مثال شجاعت کا مظاہرہ کرکے  بعض قریش کے بہادروں کو تہہ تیغ کردیا تھا۔

        ابوبکر کے مرنے کے بعد عمر نے آپ کو کوفہ کا گورنر بنا کر بھیجا ۔ اور جب عمر ہی نے آپ کو معزول کردیا تو کسی نے آپ سے سوال کیا کہ کیا آپ اپنی معزولی پر ناراض نہیں ہیں ؟ تو جواب دیا : ’’کب میں اپنے انتصاب سے خوشحال تھا جو معزول ہونے پر رنجیدہ ہوتا‘‘

        عثمان کی حکومت کے زمانے میں جناب عمار اعتراض کرنے والوں میں پیش پیش تھے اور ہمیشہ عثمان کے غلط کاموں اور بنی امیہ کی بدکاریوں  کی شکایت کرتے رہتے تھے جس کی وجہ سے کئی بار عثمان نے آپ کو ضرب و شتم کیااور ربذہ تبعید کرنے کی دھمکی بھی دی لیکن آپ اپنے اعتراض سے کبھی بعض نہ آئے ۔

        عمار ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے جناب امیر المومنین علی ابن ابی طالب ، امام حسن ؑ، امام حسین ؑ، مقداد ، عقیل ، زبیر ، ابوذر ، سلمان

فارسی اور بنی ہاشم کے بعض افراد کے ہمراہ  حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا،گوہر ناب محمدی کے جنازہ پر نماز پڑھی تھی ۔

        عثمان کی حکومت کے سقوط اور حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب کی خلافت کے نافذ ہونے کے بعد عمار اور قیس بن سعد بیت المال کی امانتداری کے فرائض انجام دیتے تھے۔

        آخر کار جناب عمار جنگ صفین میں ربیع الاول ۳۷۔ھ؁ کو  جام شہادت سے سیراب ہوئے ۔ معاویہ نے کہا : عمار کو جنگ کے لئے جو لایا ہے اس نے شہید کیا ہے ‘‘ اس طرح اہل شام کو اپنے ان جملوں سے فریب دیا ۔

        جب جناب امیر المومنین کو جناب عمار کے شہید ہونے کی خبر ملی تو آپ ؑعمار کے جنازے کے پاس آئے اور اپنے زانو پر عمار کا سر رکھ کر  فرمایا:

                الا یا ایھا الموت الذی ھو قاصدی                              ارحنی فقد افنیت کل خلیل

                اراک بصیرا بالذین احبھم                                              کانک تنحو نحوھم بدلیل

        اس کے بعد آپ ؑنے عمار کے جنازے پر نماز پڑھائی اور خداوند منان سے عمار کے حق میں طلب خیر کیا۔( شوستری ؛ قاضی نور اللہ ، مجالس المومنین :ج۱ص۲۱۴)

        میثم تمار

        علیؑ کے اصحاب میںمیثم تمار اس شخصیت کا نام ہے جنہیں امامؑرموز و اسرار سے آگاہ کیا کرتے تھے ، جناب میثم تمارنہروان کے قریب ایران کے سرحدی علاقہ سے تعلق رکھتے تھے اسی لئے آپ کو’’ میثم نہروانی ‘‘بھی کہا جاتا تھا ۔

        ایک دن امیر المومنین علی بن ابی طالب نے میثم سے فرمایا: میرے بعدتجھے سولی دی جائے گی اس کے بعد زخمی کیا جائے گا تیسرے دن تمہارے ناک و منہ سے خون جاری ہوگا جس سے تمہاری داڑھی رنگین ہوجائے گی ۔اس لمحہ کا انتظار کرو جس دن عمرو بن حریث کے گھر سولی دی جائے گی ۔

        چنانچہ امام حسین ؑکے سرزمین عراق پر وارد ہونے سے دس دن پہلے جناب میثم تمار کو شہید کیا گیا ۔ اس لئے کہ جناب میثم کو تین دن سولی دینے کے بعد جب زخمی کیا گیا تو میثم کی زبان سے اللہ اکبر کی صدا آئی اور راہی ٔملک عدم ہوگئے ۔

        کمیل بن زیاد نخعی

        کمیل بن زیاد نخعی ، اہل یمن اور قبیلہ نخع کے رہنے والے تھے ۔ابن کثیر شامی نے جناب کمیل کو شجاع ، زاہد اور باوقار توصیف کیا ہے ۔ عثمان کے خلاف قیام کرنے والوں میں جناب کمیل کانام سرفہرست ان افراد میں سے ہے جنہیں شام تبعید کیا گیا تھا ، بعد میں کوفہ لوٹ آئے اور جناب امیر ؑکے ساتھ جنگ صفین میں شرکت بھی کی تھی ۔

        جناب کمیل اس شخصیت کا نام ہے جنھیں جناب امیر المومنین ؑنے ایک دعا تعلیم دی جو کمیل ہی کے نام سے مشہور ہوئی جس کے بارے میں علامہ مجلسی فرماتے ہیں کہ دعائے کمیل بہترین دعاؤں میں سے ایک ہے جسے حضرت علی ؑنے جناب کمیل کو تعلیم دی ہے ۔

        جب جناب کمیل کو حجاج بن یوسف ثقفی نے گرفتار کرایا تو آپ نے فرمایا میرے مولا نے کہا تھا کہ اے کمیل تجھے حجاج بن یوسف ثقفی

قتل کرے گا ۔ حجاج نے کہا یہ عثمان کے قاتلوں میں سے ہے اس کی گردن اڑا دی جائے ، اس طرح جناب کمیل ابن زیاد کی شہادت واقع ہوئی۔

                رشید ہجری

        یاقوت حموی نے کہا ہے کہ ’’ہجر‘‘بحرین کے ایک شہر میں واقع ہے ، بلکہ اطراف بحرین کو ہجر کہا جاتا ہے ۔ جبکہ شوشتری کہتے ہیں کہ رشید یمن کے ’’ہجر‘‘ نامی علاقہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔

        رشید ہجری ،جناب امیر المومنین ؑکے ان اصحاب با وفا میں سے تھے جنہیں آپ نے اسرار و رموز سے آگاہ کر دیا تھا اور ان کے شہید ہونے کی کیفیت بھی بیان کی تھی، چنانچہ ابو حیان بجلی یوں بیان کرتے ہیں :

        رشید ہجری کی بیٹی قنوا سے میں نے پوچھا جو کچھ اپنے بابا کی شہادت کے بارے میں جانتی ہو مجھے بتاؤ تو قنوا نے کہا : میں نے اپنے بابا سے سنا ہے کہ جناب امیر ؑنے مجھ سے فرمایا: اے رشید اس وقت کیسے صبر کروگے جب بنی امیہ کا حرام زادہ جسے بنی امیہ نے اپنے سے ملحق کیا ہے تمہیں بلاکر ہاتھ ، پیر اور زبان کاٹے گا ؟ تو میں نے عرض کیا : اے امیر المومنین ؑ آیا اس کے بعد بہشت ہے ؟ تو آپ ؑنے فرمایا : اے رشید تم دنیا اور آخرت دونوں میں میرے ساتھ ہو۔

        چنانچہ جیسا کہ علی ؑنے رشید کو خبر دی تھی اسی طرح عبید اللہ بن زیاد نے جناب رشید کو بلا کر پہلے ہاتھ اور پیر کاٹے لیکن جب رشید کی آتش بیانی کی تاب نہ لاسکا تو آخر کار زبان کاٹنے کا حکم دیا ، جناب رشید زبان کٹنے کے بعد اسی شب میں دار فنانی کو الوداع کہکر دار بقا کو سدھارے ۔

        قنبر

        جناب قنبر حضرت علیؑ کے غلام تھے اور مولا کو بہت زیادہ چاہتے تھے جیسے ہی مولا گھر سے باہر نکلتے تھے امام کے پیچھے پیچھے تلوار لے کر نکل پڑتے تھے، ایک رات حضرت علی ؑنے قنبر سے فرمایا : اے قنبر کیوں آئے ہو؟ قنبر نے کہا: آپ کی حفاظت کے لئے آیا ہوں ، امام نے فرمایا: تم مجھے اہل آسمان سے بچانے آئے ہو یا اہل زمین سے ؟ قنبر نے کہا: اہل زمین سے ، امام نے فرمایا : اہل زمین خداوند عالم کی اجازت اور ارادہ کے بغیر کسی کام کے انجام دینے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے ہیں یہ کہکر قنبر کو واپس کردیا ۔

        شیخ کشی ایک روایت نقل کرتے ہیں : ایک دن حضرت علیؑ ام عمر نامی بیوی کے گھر تشریف فرما تھے قنبر نے آکر کہا مولا : دس افراد گھر کے سامنے گھڑے ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ آپ ان کے خدا ہیں !، حضرت نے فرمایا: ان کو بلاؤ ۔ وہ لوگ آپ کے پاس تشریف لائے ،امام نے کہا : کیا کہتے ہو؟ ان لوگوں نے جواب دیا :ہمارا کہنا یہ ہے کہ آپ ہمارے خدا ہیں ، آپ ہی نے ہم کو خلق کیا ہے اور آپ ہی ہم کو روزی دیتے ہیں ۔ جناب امیر نے فرمایا : وای ہو تم پر ! ایسا نہ کہو میں بھی تمہاری طرح مخلوق ہوں ۔ لیکن ان لوگوں نے اصرار کیا اور اپنے عقیدہ پر ڈٹے رہے ۔ تو آپ نے ایک کنواں کھودنے کا حکم دیا اسے کے بعد اس میں آگ روشن کی اور سب کو جلا دیا ، پھر آپ نے یہ شعر پڑھا :

                        انی اذا ابصرت شیئا منکرا               اوقدت ناری و دعوت قنبرا  (شیخ طوسی ، اختیار معرفت الرجال (رجال الکشی)ص۶۷)

        جناب قنبر کو حجاج بن یوسف سقفی نے بلا کر کہا : اگر میں تیرے سر کو تن سے جدا کردوں تو کیا کروگے ؟ قنبر نے جواب دیا : میں سعادتمند ہوجاؤں گا اور تو شقی ہوگا ۔ اس جملہ کے تاب نہ لاکر حجاج نے قنبر کے سر کو تن سے جدا کرنے کا حکم دے دیا ۔   

تحریر:   سید محمد عباس رضوی                               

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button