165۔ عفو و درگذشت

اِذَا قَدَرْتَ عَلٰى عَدُوِّكَ، فَاجْعَلِ الْعَفْوَ عَنْهُ شُكْراً لِلْقُدْرَةِ عَلَيْهِ۔ (نہج البلاغہ حکمت 10)
دشمن پر قابو پاؤ تو اس قابو پانے کا شکرانہ اس کو معاف کر دینا قرار دو۔
عفو و درگزر وہی ہوتا ہے جہاں انتقام پر قدرت ہو اور جہاں قدرت ہی نہ ہو وہاں انتقام سے ہاتھ اٹھا لینا مجبوری کا نتیجہ ہوتا ہے جس پر کوئی فضیلت مرتب نہیں ہوتی۔ البتہ قدرت و اختیار کے ہوتے ہوئے عفو و درگزر سے کام لینا فضیلت انسانی کا جوہر اور اللہ کی اس بخشی ہوئی نعمت پر اظہار شکر ہے۔
کیونکہ شکر کا جذبہ اس کا مقتضی ہوتا ہے کہ انسان اللہ کے سامنے تذلّل و انکساری سے جھکے جس سے اس کے دل میں رحم و رافت کے لطیف جذبات پیدا ہوں گے اور غیظ و غضب کے بھڑکتے ہوئے شعلے ٹھنڈے پڑ جائیں گے، جس کے بعد انتقام کا کوئی جذبہ ہی نہیں رہے گا کہ جسے ٹھنڈا کرنا پڑے۔
قدرت مند کا بہترین عمل بخش دینا ہے اور بدترین عمل انتقام لینا ہے۔ ایک شخص دوسرے کو بہت گالیاں دیتا ہے مگر وہ شخص اسے کبھی جواب نہیں دیتا خود گالیاں دینے والا یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ وہ جواب اس لیے نہیں دیتا چونکہ مجھے جواب کے بھی لائق نہیں سمجھتا۔ انتقام اور جواب کی طاقت رکھتا ہےمگر نہ انتقام لیتا ہے نہ جواب دیتا ہے۔
When you have gained power over your enemy, forgive him out of gratitude for the ability to overpower him. (Nahjul Balagha Saying 10)




